سندھ کا ہیرو کون تھا محمد بن قاسم یا پھر راجہ دہر؟
اس کی تصویروں پر پھول چڑھتے!تیرہ سو برس بعد اس کا ٹویٹر ٹرینڈ بنتےدیکھ کر !یہ مطالبہ پڑھ کر کہ راجہ رنجیت سنگھ کی طرح راجہ داہر کا بھی مجسمہ لگانے دیا جائے
اور کچھ سننا ہے؟ تو سنو اسلام اور پاکستان پسندو!
میں چند ماہ پہلے بھنبھور کے اس تاریخی مقام گیا تھا جہاں سے محمد بن قاسم آیا تھا دیکھ کر آنسو آ گئے بریڈ فورڈ سے آئے مہمان حاجی نذیر صاحب اور ان کی افسانہ نگار اہلیہ آنسووں سے رو پڑے وہاں کوئی علامت تک نہیں جس سے پتہ چل سکے کہ یہاں سے محمد بن قاسم آیا تھا بورڈ پرایک لائن میں بس کچھ “عرب حملہ آوروں “کا ذکر تھا باقی سب لوک داستانیں !وہاں محمد بن قاسم کی مسجد ،تاریخی نشانیاں ایک بورڈ تک سے محروم ہیں نیشنل ہائی وے پر ایک نشان تک نہیں
ایسا اس لئے کہ جی ایم سید کے وارثوں ،رسول بخش پلیجو کے شاگردوں نے کالجوں یونی ورسٹیوں سے ہزاروں زہریلے متعصب قوم پرست بیوروکریٹس،صحافی، ماہرین تعلیم ،پیدا کیے جنہوں نے نصاب بدلا ،ذہن بدلے اب سندھ کی پڑھی لکھی نئی نسل کی ایک قابل ذکر تعداد میں یا تو خدا بیزار ہے یا قوم پرست یا مفاد پرست یا تنگ نظر ۔۔۔اور وہ اسلام کے تصور قومیت سے محروم ہے اور اسلام پسند سندھ میں مدرسوں تک محدود ہیں یا پھر چند کالجوں یونیورسٹیوں میں زیادہ تر غیر سندھی طلبہ میں وجود رکھتے ہیں
راجہ داہر کے وارثوں سے سندھ بچانا ہے تو سندھ میں پچیس سالہ تعلیمی انقلاب کا خاکہ بنا کر ہزاروں لاکھوں عام نوجوانوں کے زہن بنانے ہو ں گے ورنہ تیار رہیں کسی دن راجہ داہرکا مجسمہ حیدرآباد کے قاسم چوک پر لگا ہو گا اور آپ کے پاس ہاتھ ملنے کے سوا کوئی راستہ نہ ہو گا۔۔۔!
#خودکلامی۔۔۔زبیر منصوری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں