کم نظر قارئین۔
یہ بات بلکل درست ہے کہ لکھنے والے اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق لکھتا ہے اور پڑھنے والا اپنی عقل اور فہم کے مطابق اُسے سمجھتا ہے ۔ لکھنے والا اپنے لکھے کا زمہ دار تو ہو سکتا ہے مگر وہ پڑھنے والے کی سوچ کی زمہ داری کیسے لے سکتا ہے ۔ ہارون ملک ، حافظ صفوان ، روبینہ شاہین ، مسعود انور ،شاہین مُفتی ، شفق نذیر ، عاصم اظہر اور دیگر احباب اپنی اپنی سوچ کے مطابق پوسٹس لکھتے ہیں مگر پڑھنے والے اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق اُن پوسٹس کے معانی اور مطالب نکال کر لٹھ لے کر اُن پر چڑھ دوڑتے ہیں ۔ گالم گلوچ کرتے ہیں ، بُرا بھلا کہتے ہیں ، طعنے دیتے ہیں ۔ میری اور مسعود انور کی پوسٹس پر اعتراض کرنے والے سب سے پہلے ہمیں عمر اور داڑھی کا طعنہ دیتے ہیں ۔ بھئ عمر کا پوسٹ سے کیا تعلق ؟ آپ نے کیا ہم سے “ مُفتیوں” والاکام کروانا ہے کیا؟ داڑھی بیچ میں کہاں سے آ گئی؟ ہماری لکھی پوسٹس سے اختلاف ضرور کیجئیے یہ آپ کا حق ہے مگر علمی اور عقلی بُنیاد پر۔ اگر آپ کو کسی کی پوسٹس بلکل ہی پسند نہیں ہیں تو اُسے بلاک اور ان فرینڈ کر دیں مگر طعنے اور گالم گلوچ نہ کیا کریں۔
جہاں تک فحاشی کا تعلق ہے تو یاد رکھیں فحاشی لکھی گئی پوسٹ کے لفظوں میں نہیں پڑھنے والے کے دماغ میں ہوتی ہے۔اپنی سوچ کو درست کیجئیے۔ مُثبت اور تعمیری سوچ کے ساتھ پوسٹس پڑھنے کی عادت ڈالئیے۔ کم نظری چھوڑئیے۔
تنویر بیتاب
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں