آج کا سبق
تفہیم القرآن
مفسر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
سورۃ نمبر 9 التوبة
آیت نمبر 38
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَا لَـكُمۡ اِذَا قِيۡلَ لَـكُمُ انْفِرُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اثَّاقَلۡـتُمۡ اِلَى الۡاَرۡضِ ؕ اَرَضِيۡتُمۡ بِالۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا مِنَ الۡاٰخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا فِى الۡاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيۡلٌ ۞
ترجمہ:
38اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دُنیوی زندگی کا یہ سب سرو سامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔39
تفسیر:
سورة التَّوْبَة 38
یہاں سے وہ خطبہ شروع ہوتا ہے جو غزوہ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں نازل ہوا تھا۔
سورة التَّوْبَة 39
اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ عالم آخرت کے بےپایاں زندگی اور وہاں کے بےحد و حساب سازو سامان کو جب تم دیکھو گے تب تمہیں معلوم ہوگا کہ دنیا کے تھوڑے سے عرصہ حیات میں لطف اندوزی کے جو بڑے سے بڑے امکانات تم کو حاصل تھے اور زیادہ سے زیادہ جو اسباب عیش تم کو میسر تھے وہ غیر محدود امکانات اور اس نعیم و ملک کبیر کے مقابلہ میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ اور اس وقت تم کو اپنی اس ناعاقبت اندیشی و کم نگاہی پر افسوس ہوگا کہ تم نے کیوں ہمارے سمجھانے کے باوجود دنیا کے عارضی اور قلیل منافع کی خاطر اپنے آپ کو ان ابدی اور کثیر منافع سے محروم کرلیا۔ دوسرے یہ کہ متاع حیاۃ دنیا آخرت میں کام آنے والی چیز نہیں ہے۔ یہاں تم خواہ کتنا ہی سروسامان مہیا کرلو، موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہر چیز سے دست بردار ہونا پڑے گا، اور سرحد موت کے دوسری جانب جو عالم ہے وہاں ان میں سے کوئی چیز بھی تمہارے ساتھ منتقل نہ ہوگی۔ وہاں اس کا کوئی حصہ اگر تم پاسکتے ہو تو صرف وہی جسے تم نے خدا کی رضا پر قربان کیا ہو اور جس کی محبت پر تم نے خدا اور اس کے دین کی محبت کو ترجیح دی ہو۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں