آج کا سبق
تفہیم القرآن
مفسر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
سورۃ نمبر 9 التوبة
آیت نمبر 60
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَالۡعٰمِلِيۡنَ عَلَيۡهَا وَالۡمُؤَلَّـفَةِ قُلُوۡبُهُمۡ وَفِى الرِّقَابِ وَالۡغٰرِمِيۡنَ وَفِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِؕ فَرِيۡضَةً مِّنَ اللّٰهِؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ ۞
ترجمہ:
یہ صدقات تو دراصل فقیروں61 اور مسکینوں62 کے لیے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں63، اور اُن کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو۔64 نیز یہ گردنوں کے چھُڑانے65 اور قرضداروں کی مدد کرنے میں66 اور راہِ خدا میں67 اور مسافر نوازی میں68 استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے
تفسیر:
سورة التَّوْبَة 61
فقیر سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اپنی معیشت کے لیے دوسرے کی مدد کا محتاج ہو۔ یہ لفظ تمام حاجت مندوں کے لیے عام ہے خواہ وہ جسمانی نقص یا بڑھاپے کی وجہ سے مستقل طور پر محتاج اعانت ہوگئے ہوں، یا کسی عارضی سبب سے سردست مدد کے محتاج ہوں اور اگر انہیں سہارا مل جائے تو آگے چل کر خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہوں، مثلا یتیم بچے، بیوہ عورتیں، بےروزگار لوگ اور وہ لوگ جو قتی حوادث کے شکار ہوگئے ہوں۔
سورة التَّوْبَة 62
مَسکَنَت کے لفظ میں عاجزی، درماندگی، بےچارگی اور ذلت کے مفہومات شامل ہیں۔ اس اعتبار سے مساکین وہ لوگ ہیں جو عام حاجت مندوں کی بہ نسبت زیادہ خستہ حال ہوں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ ایسے لوگوں کو مستحق امداد ٹھیرایا ہے جو اپنی ضروریات کے مطابق ذرائع نہ پا رہے ہوں اور سخت تنگ حال ہوں مگر نہ تو ان کی خود داری کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتی ہو اور نہ ان کی ظاہری پوزیشن ایسی ہو کہ کوئی انہیں حاجت مند سمجھ کر ان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے۔ چناچہ حدیث میں اس کی تشریح یوں آئی ہے کہ المسکین الذی لا یجد غنی یغنیہ ولا یفطن لہ فیتصدق علیہ ولا یقوم فیسئال الناس۔” مسکین وہ ہے جو اپنی حاجت بھر مال نہیں پاتا، اور نہ پہچانا جاتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے، اور نہ کھڑا ہو کر لوگوں سے مانگتا ہے۔ “ گویا وہ ایک ایسا شریف آدمی ہے جو غریب ہو۔
سورة التَّوْبَة 63
یعنی وہ لوگ جو صدقات وصول کرنے اور وصول شدہ مال کی حفاظت کرنے اور ان کا حساب کتاب لکھنے اور انہیں تقسیم کرنے میں حکومت کی طرف سے استعمال کیے جائیں۔ ایسے لوگ خواہ فقیر و مسکین نہ ہوں، ان کی تنخواہیں بہر حال صدقات ہی کی مدد سے دی جائیں گی۔ یہ الفاظ اور اسی سورة کی آیت ١٠٣ کے الفاظ خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم اسلامی حکوت کے فرائض میں سے ہے۔
اس سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ذات اور اپنے خاندان (یعنی بنی ہاشم) پر زکوٰۃ کا مال حرام قرار دیا تھا، چناچہ آپ نے خود بھی صدقات کی تحصیل کا کام ہمیشہ بلامعاوضہ کیا اور دوسرے بنی ہاشم کے لیے بھی یہ قاعدہ مقرر کردیا کہ اگر وہ اس خدمت کو بلا معاوضہ انجام دیں تو جائز ہے، لیکن معاوضہ لے کر اس شعبے کی کوئی خدمت کرنا ان کے لیے جائز نہیں ہے۔ آپ کے خاندان کے لوگ اگر صاحب نصاب ہوں تو زکوٰۃ دینا ان پر فرض ہے، لیکن اگر وہ غریب و محتاج یا قرض دار یا مسافر ہوں تو زکوٰۃ لینا ان کے لیے حرام ہے۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ خود بنی ہاشم کی زکوٰۃ بھی بنی ہاشم لے سکتے ہیں یا نہیں۔ امام ابو یوسف کی رائے یہ ہے کہ لے سکتے ہیں۔ لیکن اکثر فقہاء اس کو بھی جائز نہیں رکھتے۔
سورة التَّوْبَة 64
تالیف قلب کے معنی ہیں دل موہنا۔ اس حکم سے مقصود یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کی مخالفت میں سرگرم ہوں اور مال دے کر ان کے جوش عداوت کو ٹھنڈا کیا جاسکتا ہو، یا جو لوگ کفار کے کیمپ میں ایسے ہوں کہ اگر مال سے انہیں توڑا جائے تو ٹوٹ کر مسلمانوں کے مددگار بن سکتے ہوں، یا جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اور ان کی سابقہ عداوت یا ان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہو کہ اگر مال سے ان کی استعانت نہ کی گئی تو پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے، ایسے لوگوں کو مستقل وظائف یا وقتی عطیے دے کر اسلام کا حامی و مددگار، یا مطیع و فرماں بردار، یا کم از کم بےضرر دشمن بنالیا جائے۔ اس مد پر غنائم اور دوسرے ذرائع آمدنی سے بھی مال خرچ کیا جاسکتا ہے اور اگر ضرورت ہو تو زکوٰۃ کی مد سے بھی۔ اور ایسے لوگوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ فقیر و مسکین یا مسافر ہوں تب ہی ان کی مدد زکوٰۃ سے کی جاسکتی ہے، بلکہ وہ مالدار اور رئیس ہونے پر بھی زکوٰۃ دیے جانے کے مستحق ہیں۔
یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں بہت سے لوگوں کو تالیف قلب کے لیے وظیفے اور عطیے دیئے جاتے تھے لیکن اس امر میں اختلاف ہوگیا ہے کہ آیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی یہ مد باقی رہی یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کے زمانے سے یہ مد ساقط ہوگئی ہے اور اب مؤلفۃ القلوب کو کچھ دینا جائز نہیں ہے۔ امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ فاسق مسلمانوں کو تالیف قلب کے لیے زکوٰۃ کی مد سے دیا جاسکتا ہے مگر کفار کو نہیں۔ اور بعض دوسرے فقہا کے نزدیک مؤلفۃ القلوب کا حصّہ اب بھی باقی ہے اگر اس کی ضرورت ہو۔
حنفیہ کا استدلال اس واقعہ سے ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے بعد عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آئے اور انہوں نے ایک زمین آپ سے طلب کی۔ آپ نے ان کو عطیہ کا فرمان لکھ دیا۔ انہوں نے چاہا کہ مزید پختگی کے لیے دوسرے اعیان صحابہ بھی اس فرمان پر گواہیاں ثبت کریں۔ چناچہ گواہیاں بھی ہوگئیں۔ مگر جب یہ لوگ حضرت عمر (رض) کے پاس گواہی لینے گئے تو انہوں نے فرمان کو پڑھ کر اسے ان کی آنکھوں کے سامنے چاک کردیا اور ان سے کہا کہ بیشک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم لوگوں کی تالیف قلب کے لیے تمہیں دیا کرتے تھے مگر وہ اسلام کی کمزوری کا زمانہ تھا۔ اب اللہ نے اسلام کو تم جیسے لوگوں سے بےنیاز کردیا ہے۔ اس پر وہ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس شکایت لے کر آئے اور اپ کو طعنہ بھی دیا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمر (رض) ؟ لیکن نہ تو حضرت ابوبکر (رض) ہی نے اس پر کوئی نوٹس لیا اور نہ دوسرے صحابہ میں سے ہی کسی نے حضرت عمر (رض) کی اس رائے سے اختلاف کیا۔ اس سے حنفیہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ جب مسلمان کثیر التعداد ہوگئے اور ان کو یہ طاقت حاصل ہوگئی کہ اپنے بل بوتے پر کھرے ہو سکیں تو وہ سبب باقی نہیں رہا جس کی وجہ سے ابتداء مؤلفۃ القلوب کا حصہ رکھا گیا تھا۔ اس لیے باجماع صحابہ یہ حصہ ہمیشہ کے لیے ساقط ہوگیا۔
امام شافعی (رح) کا استدلال یہ ہے کہ تالیف قلب کے لیے کفار کو مال زکوٰۃ دینا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل سے ثابت نہیں ہے۔ جتنے واقعات حدیث میں ہم کو ملتے ہیں ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے کفار کو تالیف قلب کے لیے جو کچھ دیا وہ مال غنیمت سے دیا نہ کہ مال زکوٰۃ سے۔
ہمارے نزدیک حق یہ ہے کہ مؤلفۃ القلوب کا حصہ قیامت تک کے لیے ساقط ہوجانے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلاشبہ حضرت عمر (رض) نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح تھا۔ اگر اسلامی حکوت تالیف قلب کے لیے مال صرف کرنے کی ضرورت نہ سمجھتی ہو تو کسی نے اس پر فرض نہیں کیا ہے کہ ضرور ہی اس مد میں کچھ نہ کچھ صرف کرے۔ لیکن اگر کسی وقت اس کی ضرورت محسوس ہو تو اللہ نے اس کے لیے جو گنجائش رکھی ہے اسے باقی رہنا چاہیے۔ حضرت عمر (رض) اور صحابہ کرام کا اجماع حس امر پر ہوا تھا وہ صرف یہ تھا کہ ان کے زمانہ میں جو حالات تھے ان میں تالیف قلب کے لیے کسی کو کچھ دینے کی وہ حضرات ضرورت محسوس نہ کرتے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ صحابہ کے اجماع نے اس مد کو قیامت تک کے لیے ساقط کردیا جو قرآن میں بعض اہم مصالح دینی کے لیے رکھی گئی تھی۔
رہی امام شافعی کی رائے تو وہ اس حد تک تو صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جب حکومت کے پاس دوسری مدات آمدنی سے کافی مال موجود ہو تو اسے تالیف قلب کی مد پر زکوٰۃ کا مال صرف نہ کرنا چاہیے۔ لیکن جب زکوٰۃ کے مال سے اس کام میں مدد لینے کی ضرورت پیش آجائے تو پھر یہ تفریق کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ فاسقوں پر اسے صرف کیا جائے اور کافروں پر نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ قرآن میں مؤلفۃ القلوب کا جو حصہ رکھا گیا ہے وہ ان کے دعوائے ایمان کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ اسلام کو اپنے مصالح کے لیے ان کی تالیف قلب مطلوب ہے اور وہ اس قسم کے لوگ ہیں کہ ان کی تالیف قلب صرف مال ہی کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے۔ یہ حاجت اور یہ صفت جہاں بھی متحقق ہو وہاں امام مسلمین بشرط ضرورت زکوٰۃ کا مال صرف کرنے کا ازروئے قرآن مجاز ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اگر اس مد سے کفار کو کچھ نہیں دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے پاس دوسری مدات کا مال موجود تھا۔ ورنہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک کفار پر اس مد کا مال صرف کرنا جائز نہ ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تشریح فرماتے۔
سورة التَّوْبَة 65
گردنیں چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ غلاموں کی آزادی میں زکوٰۃ کا مال صرف کیا جائے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جس غلام نے اپنے مالک سے یہ معاہدہ کیا ہو کہ اگر میں اتنی رقم تمہیں ادا کردوں تو تم مجھے آزاد کردو، اسے آزادی کی قیمت ادا کرنے میں مدد دی جائے۔ دوسرے یہ کہ خود زکوٰۃ کی مد سے غلام خرید کر آزاد کیے جائیں۔ ان میں سے پہلی صورت پر تو سب فقہاء متفق ہیں لیکن دوسری صورت کو حضرت علی (رض) ، سعید بن جبیر، لیث، ثوری، ابراہیم نخعی، شعبی، محمد بن سیرین، حنفیہ اور شافعیہ ناجائز کہتے ہیں اور ابن عباس، حسن بصری، مالک، احمد اور ابو ثور جائز قرار دیتے ہیں۔
سورة التَّوْبَة 66
یعنی ایسے قرض دار جو اگر اپنے مال سے اپنا پورا قرض چکا دیں تو ان کے پاس قدر نصاب سے کم مال بچ سکتا ہو۔ وہ خواہ کمانے والے ہوں یا بےروزگار اور خواہ عرف عام میں فقیر سمجھے جاتے ہوں یا غنی، دونوں صورتوں میں ان کی اعانت زکوٰۃ کی مد سے کی جاسکتی ہے۔ مگر متعدد فقہاء کی رائے یہ ہے کہ جس شخص نے بد اعمالیوں اور فضول خرچیوں میں اپنا مال اڑا کر اپنے آپ کو قرضداری میں مبتلا کیا ہو اس کی مدد نہ کی جائے جب تک وہ توبہ نہ کرلے۔
سورة التَّوْبَة 67
راہ خدا کا لفظ عام ہے۔ تمام وہ نیکی کے کام جن میں اللہ کی رضا ہو اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس حکم کی رو سے زکوٰۃ کا مال ہر نیک کام میں صرف کیا جاسکتا ہے لیکن حق یہ ہے اور ائمہ سلف کی بڑی اکثریت اسی کی قائل ہے کہ یہاں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے یعنی وہ جدوجہد جس سے مقصود نظام کفر کو مٹانا اور اس کی جگہ نظام اسلامی کو قائم کرنا ہو۔ اس جدوجہد میں جو لوگ کام کریں ان کو سفر خرچ کے لیے، سواری کے لیے آلات واسلحہ اور سروسامان کی فراہمی کے لیے زکوٰۃ سے مدد دی جاسکتی ہے خواہ وہ بجائے خود کھاتے پیتے لوگ ہوں اور اپنی ذاتی ضروریات کے لیے ان کو مدد کی ضرورت نہ ہو۔ اسی طرح جو لوگ رضا کارانہ اپنی تمام خدمات اور اپنا تمام وقت عارضی طور پر یا مستقل طور پر اس کام کے لیے دیدیں ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی زکوٰۃ سے وقتی یا استمراری اعانتیں دی جاسکتی ہیں۔ یہاں یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ ائمہ سلف کے کلام میں بالعموم اس موقع پر غزو کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قتال کا ہم معنی ہے اس لیے لوگ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مصارف میں فی سبیل اللہ کی جو مد رکھی گئی ہے وہ صرف قتال کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن درحقیقت جہاد فی سبیل اللہ قتال سے وسیع تر چیز کا نام ہے اور اس کا اطلاق ان تمام کوششوں پر ہوتا ہے جو کلمہ کفر کو پست اور کلمہ خدا کو بلند کرنے اور اللہ کے دین کو ایک نظام زندگی کی حیثیت سے قائم کرنے کے لیے کی جائیں خواہ وہ دعوت و تبلیغ کے ابتدائی مرحلے میں ہوں یا قتال کے آخری مرحلے میں۔
سورة التَّوْبَة 68
مسافر خواہ اپنے گھر میں غنی ہو، لیکن حالت سفر میں اگر وہ مدد کا محتاج ہوجائے تو اس کی مدد زکوٰۃ کی مد سے کی جائیگی یہاں بعض فقہا نے یہ شرط لگائی ہے کہ جس شخص کا سفر معصیت کے لیے نہ ہو صرف وہی اس آیت کی رو سے مدد کا مستحق ہے۔ مگر قرآن و حدیث میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں ہے، اور دین کی اصولی تعلیمات سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص مدد کا محتاج ہو اس کی دست گیری کرنے میں اس کی گناہ گاری مانع نہ ہونی چاہیے۔ بلکہ فی الواقع گناہ گاروں اور اخلاقی پستی میں گرے ہوئے لوگوں کی اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ یہ ہے کہ مصیبت کے وقت ان کو سہارا دیا جائے اور حسن سلوک سے ان کے نفس کو پاک کرنے کی کوشش کی جائے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں