جماعت اسلامی کی چرم قربانی ایک تاثراتی تحریر



میں فرشتوں سے ملا ہوں
------------------------------ ( نجیب ایوبی )
یہ کون بچے ہیں ؟ معصوم پھول جیسے ، عید کے کپڑے خون سے لتھڑے، گلابی گال دھوپ کی تمازت سے کلسائے، مرجھاے ہوے ، ہونٹوں پر خشک پپڑیاں ، ہاتھ میں سوکھی گھانس کی بنی ٹوکریاں ، سینے پر " الخدمت " کا بیج !
ایک گلی سے دوسری گلی ، کھال کا انتظار...... ان کو تھکا تا نہیں ، بلکہ جب یہ ننھے ننھے ہاتھ اپنے وزن سے چار گنا بڑی کھال گھسیٹ کر ٹوکری میں بھر لیتے ہیں تب ان کے تپتے ھوے گالوں پر شفق اپنے سا رے رنگ نچھاور کردیتی ہے -------------
مسرور ، مطمئن تروتازہ یہ بچے قریبی مرکز کا رخ کرتے ہیں ، قربانی کی کھال جمع کرواکر پھر سے اپنے مشن میں لگ جاتے ہیں - ان کے پیر غبار آلود ہو چکے ہیں ، چلچلاتی دھوپ نے ان کے چہروں سے بچپن کی مہک اچک لی ہے ، ان نرم اور گداز ہتھیلیوں پر سوکھی گھانس کی سخت کھردری رسیوں اور بھاری ٹوکریوں نے موٹے موٹے چھا لے ڈال دیے ہیں . مگر یہ بچے اپنے کام میں مگن ہیں - بھاگ بھاگ کر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی لگن ، جستجو نے ان میں پارہ بھر دیا ہے ،
ان بچوں کی آنکھیں ہیں ، دل بھی ہے ، یہ اپنے جیسے دوسرے بچوں کو دیکھتے بھی ہیں ، کہ وہ قربانی کے بعد تیار ہوکر بن ٹھن کر دوسرے رشتہ داروں سے عید ملنے جارھے ہیں ، مگر ان کی عید تو گویا کھال جمع کرنے کا نام ہے ... کون کہہ سکتا ہے کہ یہ آج کے معاشرے کے بچے ہیں ؟
آج سارا دن قربانی کیمپ میں بیٹھ کر میں نے دل بھر کر ان " فرشتوں " کا مشاہدہ کیا ، ان سے گلے ملا ، ان کے خون آلود کپڑوں ، پسینے سے تربتر جسموں ، دھوب سے جھلسے گالوں کو چوما -- یہ "فرشتے'' دوڑتے بھاگتے رضائے الہی ، خدمت انسانی اور جنت کے حصول کے جذبے سے سرشار -- اپنی بھوک ، اپنی پیاس ، اپنی خواھشات کو تج کر اپنی دھن میں مگن نظر آے -
ایک حضرت معاذ تھے ، ایک حضرت معاوذ ( رض ) ایک سے بڑھ کر ایک . اپنے آپ کو جنگ میں شامل کروانے کے لیے بیتاب ! کبھی ایڑیوں کے بل پر اونچا ہوکر تو کبھی کشتی کے مقابلے میں جیت کر ... اپنی صلاحیت دکھانے کی جستجو -- پھر آقائے دو جہاں نے دونوں کا انتخاب کر لیا - سبحان الله
مگر میں کہاں کی مثال کہاں پیش کر رہا ھوں -- وہ معاشرہ نبی مہربان کا معاشرہ تھا ، وہ اصحاب کرام کی اولادین تھیں ، انھوں نے آپ( ص ) سے تربیت حاصل کی تھی . .آج کا معاشرہ ....
اور آج کے بچے ---
اپنے پیر غبار آلود کر تو رہے ہیں ،
بھوک پیاس کسی اعلی و ارفع مقصد کے لیے قربان تو کر رہے ہیں
پیروں اور ہاتھوں پر چھا لے تو ان کے بھی ہیں
دھوپ کی تمازت نے جھلسایا ان کو بھی ہے،
خواھشات کا مینار انھوں نے بھی مسمار کیا ھے
ان کی دوڑ بھاگ سے کسی بیوہ کا چولھا جل تو سکتا ہے
کسی مسکین کے گھر راشن پہنچ تو سکتا ہے،
بے گھر کو ٹھکانہ میسر آ سکتا ہے
کسی کی تعلیمی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں،
کسی کی بہن کا جہیز آسکتا ہے،
کہنے دیجے کہ میں نے آج " فرشتوں" سے ملاقات کی ہے ، ان کے سینوں سے لگا ھوں ، ان کے ماتھوں کو چوما ہے .... ان کا دیدار کیا ہے ! سبحان الله سبحان الله

تبصرے

Contact Us

نام

ای میل *

پیغام *

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جماعت اسلامی کو لوگ ووٹ کیوں نہیں دیتے؟

میں کون ہوں؟