اشاعتیں

ستمبر, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ماڈرن لونڈیاں ۔۔۔ (Sexual Objectification of Women through Media)

تصویر
کل عورتوں کی معاشرتی حیثیت اور حجاب کے بارے ایک پوسٹ لگائی تھی کہ جس پر بعض دوستوں نے یہ کہا کہ نیم برہنہ لباس میں ملبوس ماڈلز اور اداکاراؤں کے لیے لفظ لونڈی کا استعمال، ان کی تحقیر اور توہین کے مترادف ہے۔ مجھے اس کے جواب میں یہ کہنا ہے کہ جیسے زمانہ قدیم میں عورتوں کی دو کیٹیگریز تھیں؛ آزاد اور لونڈیاں، یہی تقسیم آج بھی باقی ہے، بس اصطلاحات بدل گئی ہیں۔ اصل میں ہمارے دوست "لونڈی" کے لفظ پر زور دے رہے ہیں جبکہ ہم اس کے تصور کی بات کر رہے ہیں۔ ماضی میں لونڈی کا مقصد یہی تھا کہ وہ مردوں کی خدمت کرے، ان کا دل لبھائے، جنسی خواہشات کو پورا کرے، بغیر ان سے نکاح کیے، اور بغیر اس کے اس کو بیوی کا حق اور اسٹیٹس حاصل ہو۔ تو آج کی ماڈلز اور اداکاراؤں کی ایک بڑی تعداد یہی کام کر رہی ہے۔ مغرب میں اس پر کافی کام ہوا ہے، البتہ وہاں کے دانشور میڈیا کی عورت کو لونڈی نہیں کہتے بلکہ آبجیکٹ کہتے ہیں۔ اور آبجیکٹیفکیشن تھیوری (Objectification Theory) تو آج سے بیس سال پہلے آ چکی تھی کہ جس کا موضوع یہ بھی تھا کہ مغربی میڈیا کس طرح سے عورت کو ایک سیکسچوئل آبجیکٹ (Sexual Object) کے طور پیش کرتا ہے اور...

تحریکی دعوت کے لیے کامیابی کا راز

تصویر
*اردوان ٹافیاں بیچا کرتا تھا* وہ ہمیں پر پیچ راستوں سے گزارتاہوا استنبول کی ایک عام سی اندرونی بستی میں لے گیاہمارا مطالبہ ہی کچھ ایسا تھا! ہم نے خواہش ظاہر کی تھی کہ ہمیں آپ کی تحریک کے کسی چھوٹے سے حلقہ کے ناظم سے ملنا ہے یہ صاحب ایک پرچون کی دکان کے مالک تھے گرم جوشی سے ملے مین نے پوچھا"یہاں کام کیا اور کیسے ہوتاہے ؟"وہ سیدھا ساداعام سی سمجھ بوجھ کا ادمی بولا "میں دن بھر دکان پر ہوتا ہوں پوری بستی کے لوگ بارہ چودہ گھنٹے مین جب ضرورت ہو مجھ سے مل لیتے ہیں میرے پاس پوری بستی کے ہر گھر کا ڈیٹا ہے یہ رجسٹر ہے جس میں یہاں کی ہر بیوہ اور یتیم تک کا اندراج ہے اور ہم باقاعدگی سے اسے راشن پہنچاتے ہیں مگر اتنے پیسے کہاں سے آتے ہیں ؟ وہ مسکرایا اور بولا میرے پاس سودا لینے انے والے لوگوں میں سے کھاتے پیتےلوگ اپنے سامان کے ساتھ مزید ایک یا ادھے راشن کی ادائیگی بھی کر دیتے ہیں یوں بیواون کا پردہ بھی رہ جاتا ہے ہمارا رابطہ بھی رہتا ہے اور دعوت بھی فروغ پاتی ہے میرے میزبان نے بتایا کہ دیہاتی نوجوانوں کے شہروں کی طرف رجوع کو دیکھ کر ہم نے بیس پچیس برس پہلےیوتھ سینٹرز کا کرئیٹو آئ...

حق و باطل

تصویر
حق و باطل کے متعلق مولانا مودودی کا  خوبصورت بیان: سٹوڈنٹس , (خصوصاً سینیر سٹوڈنٹس ) ، ذہن میں رکھیں جو ان کو ازلی و ابدی حق دیکھنے کی پریکٹسز کروائی گئیں۔ Here & Now, the Marvellous Beauty, unconditional love, infinite wisdom, unbounded abundance, unlimited miraculous powers & the birthless, the deathless, the ageless, the ever - existing, ever - present, ever - living, ever young, the most glorious and magnificent ONE. پاکستان کے ایک بہت بڑے صحافی اور شاعر آغا شورشؔ کشمیریؒ نے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ایک خط لکھا ۔۔ جس میں انھوں نے کہا ”مولانا! تاریخ انسانی میں ہمیشہ باطل کی فتح ھوئی ھے“۔ مولانا مودودیؒ نے اس خط کے جواب میں جو لکھا ھے وہ پڑھنے کے لائق ھے: ”حق (Reality ) کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ وہ بجائے خود ’حق‘ ھے، وہ ایسی مستقل اقدار کا نام ھے ۔۔ جو سراسر صحیح اور صادق ھیں۔ اگر تمام دنیا اس سے منحرف ھوجائے ۔۔ تب بھی وہ حق ھی ھے؛ کیونکہ اس کا حق ھونا اس شرط سے مشروط نہیں ھے کہ دنیا اس کو مان لے، دنیا کا ماننا نہ ماننا سرے سے حق و باطل کے فیصلے کا معیار ھی...

انسان کی حقیقت

تصویر
ابن آدم کی اوقات یہ ایک حقیقی واقعے کی تصویر ہے۔۔۔ اس لیے لازمی پڑھے وہ خود میجر جرنل تھا اس کے تین بیٹے تھے ، تینوں سونے کا چمچ منہ میں لیے پیدا ہوئے اور شاہانہ زندگی گزرتی رہی وقت تیزی سے گزرا میجر جرنل کے ساتھ (ریٹائرڈ ) لگ گیا عہدے کی مدت ختم ہوئی ‏ریٹائرڈ ہو گئے اور اب زندگی کا سفر انتہاء کی طرف چل پڑا۔۔۔۔ بیٹوں نے باپ کے عہدے سے خوب لطف اٹھایا.. کہتے تھے ہمیں کیا فکر ہے ہمارا باپ میجر جنرل ہے... ہمارے کام خود بخود بنیں گے اور بنتے بھی رہے ایک ٹیلی فون کال پر سب کچھ قدموں میں حاضر ہو جاتا تھا پھر وہ دن آ گیا ۔۔۔۔۔ ‏جب بیٹے یہ بھول گئے کہ یہ وہی باپ ہے جس کے نام و عہدے کی وجہ سے لوگ ہمیں سر سر کہتے تھے باپ کسی بیماری کی وجہ سے چلنے پھرنے اور بولنے سے معذور ہو گیا بیٹے کہنے لگے اب تو باپ کی کمزوری دیکھی نہیں جاتی ایک بیٹے نے کہا کہ ابا کی جائیداد و مال کی تقسیم کرتے ہیں نہ جانے کب مر جائے ‏اب تو شرم آتی ہے بتاتے ہوئے کہ لوگ کیا کہیں گے جب دوست آتے ہیں تو سامنے یہ بوڈھا ہوتا ہے چلو ایک نوکر مستقل ان کے ساتھ رہنے کے لیے رکھ لیتے ہیں جو ان کا خیال رکھے بیس ہزار ماہانہ دے دیں گے ...

Contact Us

نام

ای میل *

پیغام *