تحریکی دعوت کے لیے کامیابی کا راز
*اردوان ٹافیاں بیچا کرتا تھا*
وہ ہمیں پر پیچ راستوں سے گزارتاہوا استنبول کی ایک عام سی اندرونی بستی میں لے گیاہمارا مطالبہ ہی کچھ ایسا تھا!
ہم نے خواہش ظاہر کی تھی کہ ہمیں آپ کی تحریک کے کسی چھوٹے سے حلقہ کے ناظم سے ملنا ہے
یہ صاحب ایک پرچون کی دکان کے مالک تھے گرم جوشی سے ملے
مین نے پوچھا"یہاں کام کیا اور کیسے ہوتاہے ؟"وہ سیدھا ساداعام سی سمجھ بوجھ کا ادمی بولا "میں دن بھر دکان پر ہوتا ہوں پوری بستی کے لوگ بارہ چودہ گھنٹے مین جب ضرورت ہو مجھ سے مل لیتے ہیں میرے پاس پوری بستی کے ہر گھر کا ڈیٹا ہے یہ رجسٹر ہے جس میں یہاں کی ہر بیوہ اور یتیم تک کا اندراج ہے اور ہم باقاعدگی سے اسے راشن پہنچاتے ہیں
مگر اتنے پیسے کہاں سے آتے ہیں ؟
وہ مسکرایا اور بولا میرے پاس سودا لینے انے والے لوگوں میں سے کھاتے پیتےلوگ اپنے سامان کے ساتھ مزید ایک یا ادھے راشن کی ادائیگی بھی کر دیتے ہیں یوں بیواون کا پردہ بھی رہ جاتا ہے ہمارا رابطہ بھی رہتا ہے اور دعوت بھی فروغ پاتی ہے
میرے میزبان نے بتایا کہ دیہاتی نوجوانوں کے شہروں کی طرف رجوع کو دیکھ کر ہم نے بیس پچیس برس پہلےیوتھ سینٹرز کا کرئیٹو آئیڈیا کیا ایسے نوجوانوں کو ہم اسٹیشن اور بس اڈوں سے ہی منتخب کرتے ، یہاں ٹہراتے ، جاب کے لئے ضروری ٹریننگ دیتے زبان اور شہر مین رہنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں رہائش اور کھانا دیتے ہیں اور پھر جب وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں تو یہ "قرض" قسطوں میں لوٹا دیتے ہیں
اس نے میرے کان کے قریب ہو کر مسکرا کرکہا
*اردگان بھی ایسے ہی استنبول کی سڑکوں پر ٹافیاں بیچتا ملا تھا*
انہوں نے بچوں کو رمضان میں ان کا "چڑی روزہ" کھلوا کر خوش کردیا سائیکلیں بانٹیں ،مساجد میں پلے لینڈ بنا ڈالے ،مساجد کوایسا خوبصورت بنا دیا کہ اب لوگوں کا دل چاہتا ہے کہ مسجد آئیں اور بیٹھے رہیں۔۔۔
وہ یہ سب بول رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ
"تحریکیں اور قومیں جذبوں ولولوں سے بھرپور خوشگوار اور کرئیٹو لوگوں کے ہاتھوں کامیاب ہوتی ہیں روکھی پھیکی تنقید کڑے احتساب اور مچھر چھاننے سے پژمردہ اور مایوس ہو کر بیٹھ جاتی ہیں"
( یاد دہانی مگرر)
زبیر منصوری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں