میں کون ہوں؟



سن اے غافل صدا میری یہ ایسی چیز ہے جس کو

وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں


روحانیت دریافتوں کا نام ہے !

پہلا قدم اپنے آپ کو اپنے " دنیا دار " حصے سے الگ دیکھ لینا ،

دوسرا قدم

اپنی اصلیت کو دیکھ لینا یعنی یہ بندہ جسے پیدائش سے میں اپنا آپ سمجھتا رہا یہ میں نہیں ہوں ۔

پھر میں کون کون ہوں؟

جو یہ سب دیکھ رہا ہے اور جان چکا ہے وہ میں ہوں !!!


تیری فطرت ہے نوری پاک ہے تو
فروغِ دیدہء_ افلاک ہے تو


اس دریافت کے ساتھ ہی پہلی دنیا جس کو ہم بچپن سے اصلی دنیا سمجھتے رہے اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ ، ایک نئی دنیا نظر آنا شروع ہو جاتی ہے

ہو حقیقت کیلئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر_ خاکی میں جاں پیدا کرے

پھونک پھونک ڈالے یہ زمین وآسمان_مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے

یہ دنیا آپ سے الگ نہیں ، بلکہ ہر چیز میں آپ کو گہری اپنائیت محسوس ہوتی ہے ، قدم قدم پر الوہی محبت کے جلوے اور وہ جلوے بھی آپ سے الگ نہیں ۔ ہر سمت زمین سے آسمان تک ایک ہی نور پھیلا ہوا اور وہ بھی آپ سے الگ نہیں 

حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں

اس حالت میں سکون ، لطف ، انتہائی مسرت رگ و پے میں سما جاتی ہے۔ لیکن آخر اس مستی کا بھی راز کھلتا ہے تو دریافت ہوتا ہے


نہ صہبا ہوں نہ ساقی ہوں نہ مستی ہوں نہ پیمانہ
میں اس میخانہء_ھستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں


 دنیا کی فقیری ختم ۔ صرف اور صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی فقیری شروع ہو جاتی جو دراصل فقیری نہیں ، شہنشاہی ہے ۔

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

اور 


دل کی آزادی شہنشاہی ، شکم سامان_ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم




بعض کو یہ کیفیت کچھ لمحوں کیلئے ، بعض کو چند گھنٹوں یا دنوں کیلئے اور بعض کو مستقل عطا ہو جاتی ہے


غبار_راہ کو بخشا گیا ہے ذوقِ جمال
خرد بتا نہیں سکتی کہ مدعا کیا ہے


لیکن چاہے یہ کیفیت چند سیکنڈ یا اس سے کم بھی ہو وہ اس کو  کبھی بھول نہیں سکتا اور اس کی  زندگی کی کہانی میں بہت سے غیبی عناصر لمحہ بہ لمحہ اس کی مدد کیلئے کام شروع کر دیتے ہیں ۔


کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا 
نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہانی


جس انسان  پر یہ کیفیت مستقل ہو جائے ، اس کے ذہن میں عقل کی جگہ دانش و حکمت کام شروع کر دیتی ہے۔
قرآن کریم اس  کے دل پر نزول کرتا ہے ، اور اس پر عمل انتہائی آسان ، پریکٹیکل ، نیچرل ، بغیر کوشش شروع ہو جاتا ہے ۔ 


ترے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزول_کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی ، نہ صاحب_ کشاف

اس کے علاوہ جو ہوتا ہے اس کو  الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔


ان سارے قدموں سے گزرنے کے دوران پتہ چلتا ہے کہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اس راہ سے پہلے ہی گذر چکے ہیں اور ان کے اشعار جگہ جگہ ہماری راہنمائی اور نشان _ راہ کا کام کر رہے ہیں۔ اور یہ تسلی ہوتی رہتی ہے کہ ہم اسلام کی سچی راہ پہ ہی چل رہے ہیں 

آخر پہ یہ ضرور عرض کر دوں کہ روحانیت  اعلیٰ الفاظ یا اونچے سے اونچے  خیالات سے بھی حاصل نہیں ہوتی ۔ یہ ذہن کی عقلی intellectual  دوڑ  سے نہیں ملتی کیونکہ یہ پریکٹیکل ، مکمل پریکٹیکل ہے ۔ کسی بھی قسم کی اعلیٰ سے اعلیٰ سوچ سے بھی روحانیت تک رسائی ممکن نہیں ۔ 

جو شخص روحانیت کو صرف عقلی طور پر سمجھ لینے تک  محدود رکھتا ہے ، اسے اس شخص پر کسی بھی قسم کی برتری حاصل  نہیں جو روحانیت کا نام بھی نہیں جانتا ۔

دل_ بینا بھی کر خدا سے طلب
عقل کا نور ، دل کا نور نہیں

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

Contact Us

نام

ای میل *

پیغام *

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جماعت اسلامی کو لوگ ووٹ کیوں نہیں دیتے؟

یوم باب الاسلام کا آغاز پاکستان میں کب ہوا؟