میرے قائد میں شرمندہ ہوں
*میرے قائد میں شرمندہ ہوں*
محمد ریاض قیوم
بیسویں صدی میں چشم فلک کے نصیب میں تجھے دیکھنا نصیب ہوا جس نے تاریخ کا دھارا بدل کے رکھ دیا۔ 1928 کے بین الاقوامی چارٹر کے تحت ملک قومیت کی بنیاد پر استوار ہورہے تھے۔ ہندوستان میں انگریز اپنے قدم (ہندومسلم آزادی کی مشترکہ جدوجہد کی وجہ سے) جما نہیں پارہا تھا ۔ انگریز متحدہ ہندوستان کا بٹوارا ہر صورت دیکھنا چاہتا تھا۔ شمال مغربی ہندوستان میں ہرصورت علیحدہ مملکت ہندوستان اور سوویت یونین کے درمیان بفرزون کے طور پر دیکھناچاہتا تھا۔ ایسے میں مسلمانوں کےلیے علیحدہ مملکت کے حوالے سے اقبال کا خواب مسلمانان ہند کے ذہنوں میں سماچکا تھا۔ مالک الملک نے آپ جناب عزت مآب محمدعلی جناِح کی صورت میں ایک صاحب بصیرت لیڈر مسلمانان ہند کو عطا کردیا تھا جو پاکستان نامی مملکت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوا لیکن اس مملکت کی دنیا کی تاریخ میں منفرد حیثیت یہ ٹھہری کہ اس کی بنیادوں میں کلمہ طیبہ ڈال دیا گیا۔
میرے قائد تو نے ملک حاصل کیا تھا تاکہ اس میں نظام اسلام کی مشق ہوگی مگر میں بحیثیت استاد قائد کے خواب کی تعبیر میں ناکام رہا
میرے قائد میں شرمندہ ہوں۔
اے قائد تیرے ملک کو مضبوط سیاسی قیادت کی ضرورت تھی جو ملک کو مستقل جمہوری قدروں سے بہرہ مند کرتی۔ لیکن اے قائد! بہتر سال گزر جانے کے باوجود میں بحیثیت استاد ایک بھی سیاسی لیڈر ایسا پیدا نہ کرسکا جو تیری بصیرت کا حامل ہوتا۔
اے قائد میں بحیثیت استاد شرمندہ ہوں۔
سیاسی و جمہوری قدروں کو پروان چڑھانے کے لیے ملک کے تمام آئینی اداروں کو اپنے اپنے آئینی دائرہ کار رہ کر کام کرنا ہوتا ہے۔ قائد تو نے فرمایا تھا کہ فوج سیاسی معاملات سے دور رہے گی مگر میں بحیثیت استاد ایسے جرنیل پیدا کرنے میں ناکام رہا جو تیرے وژن پر کاربند رہتے
اے قائد میں بحیثیت استاد شرمندہ ہوں۔
کسی بھی معاشرے کی بقا کے لیے نظام عدل کا مضبوط ترین اور ججز کا مکمل طور پر غیر جانبدار ہونا اشد ضروری ہوتا ہے لیکن میں بحیثیت استاد آج تک ایسے ججز پیدا نہ کرسکا جو عدل کے معیار پر پورے اتر سکتے۔
میرے قائد میں بحیثیت استاد شرمندہ ہوں۔
کسی بھی معاشرے کی نمو کے لیے ذرائع ابلاغ اور صحافت کا شفاف ہونا امر لازم ہے۔میں بحیثیت استاد اچھے معیاری صحافی پیدا کرنے میں بہتر سال تک ناکام رہا
میرے قائد میِں بحیثیت استاد شرمندہ ہوں۔
میرے قائد تو نے مجھے زمین کا ایسا خطہ دیا جو زرخیزترین تھا مگر میں ایسے افراد پیدا کرنے میں ناکام رہا جو اس زمین کو پوری طرح سے زیراستعمال لاکر اس کے خزانوں سے بہرہ مند ہوسکتے اور تیری قوم کی خدمت کرسکتے۔
میرے قائد میں بحیثیت استاد شرمندہ ہوں۔
کسی بھی معاشرے کے لیے نظام تعلیم حقیقی انقلاب کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن میں بہتر سالوں میں ایسے افراد پیدا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا جو ملک میں نافذ لارڈ مکالے کے نظام تعلیم کو بدلنے کی حقیقی جدوجہدکرتے۔ لہذا آج بہتر سال گزرنے کے باوجود تیرا ملک لولا لنگڑا نظام تعلیم لیے پھر رہا ہے۔ تیرے ملک کی کوئی یونیورسٹی بین الاقوامی معیار کی نہیں بن سکی۔ تیرے ملک کے اساتذہ آج بھی اپنے کردار کے بجائے اپنی زبان سے عزت مانگتے نظر آتے ہیں۔ تیرے ملک کے استاد آج تک انتہائی غیر سنجیدہ اور تعلیم کے حقیقی معنوں سے سیکڑوں میل دور نظر آتے ہیں۔ استاد اپنے فریضہ پیغمبری کو سمجھنے کے بجائے مادہ پرستی کی دوڑ میں لگے ہیں۔ تیرے ملک کے استاد جزبہ تحقیق سے یکسر عاری ہوچکے ہیں۔
میرے قائد میں تیرے ملک کے لیے اچھے استاد پیدا نہیں کرسکا
میرے قائد میں بحیثیت استاد تجھ سے شرمندہ ہوں۔
اے قائد!
تو نے فرمایا تھا کہ مملکت خدا داد میں اردو نافذ کی جائے گی مگر میں کوئی ایسا افسر، جج، بیوروکریٹ، جنرل یا سیاست دان پیدا نہیں کرسکا جو تیرے اس فرمان پر عمل درآمد کرتا نظر آئے۔
میرے قائد میں بحیثیت استاد ایسے مطلوب افراد پیدا نہ کرسکنے پر شرمندہ ہوں۔
میرے قائد!
تو نے ملک اسلام کے نام پر لے کر میرے حوالے کیا تھا۔تیرے ملک میں حقیقی اسلام کو متعارف کروانا بحیثیت میری ذمہ داری تھی۔ تیرے ملک میں لوگوں نے حقیقی اسلام کو دفن کرکے فرقوں کو پروان چڑھایا۔ دین اسلام کی بے ڈھنگی تعبیریں کرکے رنگ اسلام کو مسخ کیا گیا۔ اسلام کے نام پر نفرتییں بڑھانے کی تدبیریں کی گئیں۔اے قائد تیرے ملک کو دین کے نام پر خون میں نہلا دیا گیا۔ تونے اور تیرے اقبال نے تو دین اسلام کو قرآن سے سمجھا تھا مگر تیرے ملک پر قابض لوگوں نے قرآن پر غلاف چڑھا دیئے اور اپنے اپنے فرقوں کی کتابوں کو اسلام بنا کر پیش کرنے لگے۔ اس سارے عمل میں میں بحیثیت استاد مجرمانہ غفلت، بے حسی ، نالائقی چشم پوشی اور پہلوتہی کا مرتکب ہوا۔ اسلام کے حسین و جمیل چہرے کو مسخ ہوتے دیکھتا رہا اور اسلام کو مسخ ہونے سے بچانے کی میں نے بحیثیت استاد کبھی کوشش نہیں کی۔
میرے قائد میں بحیثیت استاد شرمندہ ہوں۔
اے قائد قرآن پکار پکار کر کہ رہا ہے کہ عقل کا استعمال کرو مگر میں نے عقل گھاس چرنے کے لیے بھیج دی اور عقیدت کا طوق گلے میں ڈال کر خود گمراہ ہوتا رہا، قوم کو گمراہ ہونے دیا اور سب سے بڑھ کر میں نے ظلم یہ کیا کہ خود عقیدت کی اندھی عینک چڑھا کر قوم کو گمراہ کرتا رہا۔
میرے قائد میں بحیثیت استاد شرمندہ ہوں۔
اے قائد!
تیرے ملک میں تبلیغ دنیا میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ تیرے ملک سے حاجی دنیا بھر کے حساب سے دوسرے نمبر پر ہوتے ہیں مگر ایمانداری میں تیرے ملک کو ہم نے 127 ویں نمبر پر جا چھوڑا ہے۔ ان حاجیوں اور تبلیغیوں کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود ایماندار لوگ پیدا کرنے میں میں بری طرح ناکام رہا ہوں
میرے قائد میں بحیثیت استاد بے حد شرمندہ ہوں۔
اے قائد میں تیرے ملک کو حقیقی استاد دینے میں یکسر ناکام ہوگیا ہوں۔ استاد درویش ہوتے ہیں مگر یہاں میں نے حریص استاد پیدا کیے۔ استاد وسیع القلب اور اعلی ظرف ہوتے ہیں جو کہ میں پیدا کرنے میں ناکام رہا۔ میں تیری ملک کو مشاق و مشتاق استاد دینے کے بجائے بیروزگاری سے تنگ نوجوان بطور استاد دے سکا۔ روز گار کے متلاشی لوگ استاد کی صورت میں پیش کرکے میں نے تیرے ملک کے ساتھ دھوکہ کیا۔
میرے قائد میں بحیثیت استاد شرمندہ ہوں۔
میں شرمندہ ہوں۔
شرمندہ ہوں
شرمندہ
شرمند۔
شرم
شر۔
ہائے میرے قائد ۔۔
اے قائد۔
اف قائد جی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں