جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر منشور 2021 بیانیہ



کشمیر کی آزادی …… بیس کیمپ کی خوشحالی 
دیباچہ
انتخابی منشورکسی سیاسی جماعت کے نظریات، پالیسیوں، ترجیحات اور اہداف کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کا یہ منشور بھی اس امر کا اظہار ہے کہ اگر اللہ کی تائید و نصرت اور عوام الناس کے تعاون سے آمدہ انتخابات میں اسے خدمت کا موقع ملا تو جماعت آزاد ریاست جموں و کشمیر کو ایک مثالی خطہ بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی۔
ریاست جموں وکشمیر کی درجنوں سیاسی جماعتوں میں سے یہ اعزاز صرف جماعت اسلامی کو حاصل ہے کہ یہ واحد ریاستی جماعت ہے،جو منقسم ریاست جموں وکشمیر کے تینوں حصوں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور مقبوضہ کشمیر میں یکساں منظم، متحرک اور سرگرم ہے۔ آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیرکی اسمبلیوں میں جماعت اسلامی کو عوامی نمائندگی کے مواقع ملتے رہے ہیں جبکہ گلگت بلتستان میں عبوری حکومت میں جماعت اسلامی کی نمائندگی رہی ہے۔عوامی نمائندگی کی صورت میں قوم نے جب بھی جماعت کو خدمت کا محدود موقع دیا، جماعت سے وابستہ عوامی نمائندگان نے جرات و بیباکی، حق گوئی، خدمت خلق اور امانت و دیانت کے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
خدمت خلق کے میدان میں جماعت اسلامی کے کردار کی گواہی اس کے شدید مخالفین بھی دیتے ہیں۔جماعت اسلامی اپنے ایثار پیشہ کارکنوں اور درد دل رکھنے والے مخلص اہل خیر کے تعاون سے عوامی فلاح کے جو منصوبے چلا رہی ہے اس میدان میں کوئی دوسری جماعت،جماعت اسلامی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ زلزلے ہوں یا سیلاب، کورونا وبایا کوئی ارضی و سماوی آفت، جماعت اسلامی کے جاں نثار کارکن، مشکل کی ہر گھڑی میں قوم کی خدمت میں دن رات مصروف ہوتے ہیں اور اس معاملے میں جماعت اپنے پرائے کا امتیاز نہیں کرتی۔ جماعت اسلامی تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، یتیموں، بیواؤں اور بے سہارا لوگوں کی کفالت اور دیگر شعبوں میں بلا تخصیص خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ حکومتی سطح پر عوام کے بے پناہ وسائل خرچ کرنے کے باوجود تعلیم اور صحت کے میدان میں کوئی ترقی نہیں ہو سکی۔صورت حال یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے اور ہسپتال ویرانی کا منظر پیش کر رہے ہیں اور عوام کا ان سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔
 جماعت اسلامی کے تعاون سے اس وقت آزاد کشمیر میں سینکڑوں تعلیمی ادارے دیہی اور شہری علاقوں میں قوم کے نونہالوں کو تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں جن میں ایک لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ ان اداروں نے مجموعی طور پرہزاروں افراد کو ان کے گھر کی دہلیز پر روزگار فراہم کر رکھا ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کی مختلف تنظیموں کے زیر اہتمام اس وقت ہسپتال اور ڈسپنسریاں کام کر رہی ہیں جن میں عوام کو ہر قسم کے علاج معالجہ کی خدمات میسر ہیں،نیزایمبولینس سروس کی بے شمار گاڑیاں ہمہ وقت عوام کی خدمت کے لیے تیار رہتی ہیں۔ جماعت کے زیر اہتمام یتیم بچوں کی کفالت کے لیے آغوش کے نام سے کیڈٹ کالج کی سطح کے باغ اور راولاکوٹ میں دو  مراکز کام کر رہے ہیں۔تمام ضلعی ہیڈکوارٹرز پر ایسے مزید ادراے قائم کرنے کا منصوبہ پیش نظر ہے،جہاں یتیم بچوں کی رہائش، خوراک، تعلیم و تربیت کی جملہ ذمہ داریاں پوری کی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں خدمت کے مختلف اداروں کی وساطت سے13000سے زائدیتیم بچوں کو کفالت یتامیٰ پروگرام کے تحت وظائف دئیے جا رہے ہیں۔ جماعت نے آزاد کشمیر کے دور دراز علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے سینکڑوں یونٹ نصب کیے ہیں۔ اس کے علاوہ مساجد کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ سوماڈل دینی ادارے قائم کیے، جن میں ہزاروں بچے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اسلامی تعلیم سے مستفید ہو رہے ہیں اور حفظ قرآن کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔
محترم عبدالرشید ترابی صاحب اور محترمہ رفعت عزیز صاحبہ کی صورت میں اسمبلی میں محدود پارلیمانی نمائندگی کے باوجود ان کی کاوشوں سے 
 اسمبلی کے پلیٹ فارم سے تحریک آزادی کشمیر کی بھرپور ترجمانی کی کوشش کی گئی، اہم مواقعوں پر قراردادوں اور مباحثوں کے علاوہ پارلیمانی وفود کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کو اجاگر کیا گیا۔قرارادیں پاس کروا کر اقوام متحدہ، او آئی سی، یورپی یونین کے ذمہ داران سمیت اہم ممالک کے سربراہان کو بھجوانے کا اہتمام کروایا گیا۔
 ختم نبوت، شریعت کورٹ اور قرآن کی بارہویں تک لازمی تعلیم، اطلاعات تک رسائی اور تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے ریاست کو باوسائل اور با اختیار بنانے کے لیے قانون سازی کے عمل میں اہم کردار ادا کیاگیا۔
 میرٹ کی بالا دستی کے لیے شفاف پبلک سروس کمیشن اور این ٹی ایس کے ذریعے ہزاروں مستحق اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کا اہتمام ہوا، نیز این ٹی ایس یا تھرڈ پارٹی ویلی ڈیشن کو تحفظ دیا گیا۔
 پبلک اکاؤٹس کے پلیٹ فارم سے مالی نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے محکمہ جات اور اداروں میں کرپشن کے خاتمے اور نظام کو بنانے کے لیے مسلسل اقدامات کیے گئے، بیوروکریسی کو جواب دہ بنایا گیا، اربوں روپے کے اثاثے اور وسائل ریکور کر کے قومی خزانے میں جمع کروانے کا اہتمام کیاگیا۔
 اہم عوامی مسائل، تحریک آزادی، نوجوانوں، خواتین اور دیگر معاشرتی مسائل کااسمبلی فلور سے سوالات، توجہ دلاؤ نوٹسز اور دیگر پارلیمانی کارروائی کے ذریعے حل کروائے گئے۔
یہ ان خدمات کا مختصر تذکرہ ہے جو خود نمائی یا خود ستائی کے لیے نہیں بلکہ تحدیث نعمت کے طور پر کیا جا رہا ہے کہ اللہ رب العزت نے جماعت اسلامی کو حکومتی وسائل کے بغیر عوام کی خدمت کی توفیق بخشی ہے۔یہ وہ خدمات ہیں جو جماعت اسلامی حکومتی وسائل کے بغیر محض اپنے مخلص اور ہمدرد اہل خیر کے تعاون سے سرانجام دے رہی ہے۔ صحافت کے میدان میں نوجوان صحافیوں کی تربیت کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دی جا رہی ہیں۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر عوام الناس جماعت اسلامی کو آمدہ انتخابات میں منتخب کر کے خدمت کا موقع فراہم کریں تو وہ اپنی اعلیٰ تعلیم یافتہ، باکردار، باصلاحیت اور دیانت دار ٹیم کے ذریعے ریاست کو تعمیر وترقی کے راستے پر گامزن کر سکتی ہے اور عوام الناس کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کر کے ریاست کو ایک نمونہ کی اسلامی فلاحی ریاست بنا سکتی ہے۔
ان سب خدمات کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کی آزادی، ریاستی تشخص کی بحالی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جدوجہد آزادی کے تاریخی تسلسل، مذہبی، تہذیبی اور جغرافیائی صداقتوں کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کے آبرو مندانہ اور با معنی حل کی جدوجہد کر رہی ہے۔ اس ضمن میں جماعت اور اس سے متعلقہ ادارے میدان کارزار سے لے کر بین الاقوامی محاذ پر گزشتہ ربع صدی سے زائد عرصہ سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان سے دنیا بخوبی واقف ہے۔ عوام الناس نے اگر آمدہ انتخابات میں جماعت اسلامی پر اعتماد کا اظہار کیا تو جماعت مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جامع حکمت عملی سے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے سفینہ آزادی کو منزل سے ہمکنار کرنے کی کوشش کرے گی۔
اب فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ دودھ پینے والے مجنوں بھی آپ کے سامنے ہیں اور لیلائے وطن پر خون نچھاور کرنے والے بھی …… اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ پھر ذات، برادری، ٹوٹی کھمبے اور دھن دولت کی جھنکار سے مرعوب ہو کر بار بار آزمائے ہوئے سیاسی شعبدہ بازوں کے ہاتھوں لٹتے ہیں یا دنیا میں اپنے ضمیر اور آخرت میں مالک یوم الدین کے سامنے جواب دہی کے تصور سے اپنے ووٹ سے اہل، دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کو منتخب کرتے ہیں    ؎
دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامان موت
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھ میں ہے دل یا شکم 

  محمد تنویر انور خان 
   سیکرٹری جنرل 
 جماعت اسلامی آزا دجموں وکشمیر
اسلامی ریاست کے فرائض
 اس کائنات میں موجود ہر شے کا خالق و مالک ٗ پروردگار و آقا اور تشریعی و تکوینی حاکم صرف اللہ تعالیٰ ہے۔کسی حیثیت میں بھی کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں۔ نیز یہ کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول اور نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے ایک ایسا مکمل ضابطہ حیات دے کر مبعوث فرمایا ہے جو قیامت تک کے لیے نوعِ انسانی کی دنیاوی کامیابی اور اخروی نجات کا ضامن ہے۔ 
ایک مسلم معاشرے کے اندر حکمرانی کا حق صرف اس منتخب اجتماعیت کو حاصل ہے جواعلیٰ کردار کی  حامل ہو اور اللہ کے نائبین کی حیثیت سے من جملہ بذیل ذمہ داریاں ادا کرے۔
 دین اسلام کو اپنے تمام شعبہ ہائے زندگی میں نافذ کرنا جس میں سیاست‘ معیشت‘ عدالت‘ معاشرت اورتعلیم وغیرہ شامل ہیں۔
 اسلامی عبادات و فرائض نماز‘ زکوٰۃ‘ روزہ‘ حج کو قائم رکھے اور معاشرے میں اس حوالے سے غفلت پیدانہ ہونے دے۔شعائر اسلام کی پاسداری کرے۔
 بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
 اسلامی ریاست کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنائے اور اپنے باشندوں بالخصوص بے روزگار نوجوانوں کے لیے روز گار کے مواقع پیدا کرے۔
 جرائم کے خاتمے کے لیے نظام عدل کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے موثر و فعال بنائے۔
 معاشرے کے ہر فرد کی جان‘ مال‘ عزت و آبرو کی حفاظت کرے‘امن عامہ کے قیام کو یقینی بنائے‘اوررشوت و سفارش کے کلچر کو ختم کرے۔
 کمزور اور حاجت مندوں کی خبر گیری اور کفالت کا اہتمام کرے۔
 اقلیتوں کو ان کے حقوق دے کر مکمل تحفظ فراہم کرے۔

 مقاصد و اہداف
اگر آمدہ انتخابات میں عوام نے جماعت اسلامی کو خدمت کا موقع دیا تو درج ذیل مقاصد و اہداف کے حصول اس کی ترجیحات میں سر فہرست ہوں گے۔
 آزاد خطے میں اسلام کے عادلانہ و منصفانہ نظام کے عملی نفاذ کے ذریعے معاشی و اقتصادی خوشحالی، سماجی انصاف، خود انحصاری، عزت اور روزگار کی فراہمی کے علاوہ میرٹ اور گڈ گورننس کو یقینی بنایا جائے گا۔
 آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کے قیام کے بنیادی ہدف یعنی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے ہمہ جہت اور جامع منصوبہ بندی کے ساتھ عملی اقدامات کرنا۔
 ریاست جموں وکشمیر کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں اور قومی آزادی کا تحفظ بھارتی جارحیت کے تدارک کے لیے نوجوانوں، سابق فوجیوں اور رضا کاروں پر مشتمل سول ڈیفنس کا موثر نظام قائم کرنا۔
 نسلی‘ لسانی‘علاقائی قبیلائی‘ مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو ختم کر کے اخوت و بھائی چارے کی فضا کو فروغ دینا۔
 کرپشن کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ریاستی وسائل میں اضافہ کرتے ہوئے تعمیر و ترقی کے عمل کو فروغ دینا اور ترقیاتی بجٹ میں پانچ گنا اضافہ کرنا۔
 پن بجلی کے منصوبہ جات رائلٹی وغیرہ اور سمندر پار کشمیریوں کے زرمبادلہ کی ترسیلات کی مد سے ریاستی وسائل میں اضافے کے ذریعے بے روزگاری کے خاتمے اور پسماندہ علاقوں کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنا۔
 عوامی شراکت کے ذریعے کرپشن کا سدباب کرنا اور احتسابی عمل کو شفاف اور ہر سطح پر موثر بنانا۔
انتظامی اصلاحات
آزاد ریاست جموں وکشمیر کے وسائل پر بھاری بھر کم انتظامیہ کا ناروا بوجھ عوام الناس کی سہولت کے بجائے ان کے مسائل میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔سرکاری محکموں کی کارکردگی اور عوام کے لیے ان کی خدمات مایوس کن ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک مختصر، مستعد، پروفیشنل اور مشنری جذبے سے سرشار ٹیم کے ساتھ ریاست کا نظام بہتر انداز سے چلایا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے کابینہ اور بیورو کریسی کا سائز کم کرتے ہوئے وسائل کا رخ صحت و صفائی، تعلیم، سماجی بہبود،غربت کے خاتمے اور عام آدمی کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی طرف موڑا جانا ضروری ہے۔
 بلدیاتی ادارے اور منتخب نمائندے عوام کی دہلیز پر سہولیات و خدمات کی فراہمی کے ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن کئی عشروں سے حکومتوں نے عوامی خدمت کے اس اہم شعبے کو نظر انداز کر رکھا ہے، جماعت اسلامی آئینی ترمیم کے ذریعے بلدیاتی اداروں کو تحفظ فراہم کرے گی اور ان کے انتخابات اور اختیارات کو یقینی بنائے گی۔
 پبلک سیکٹر کارپوریشنوں کو سیاسی و سرکاری اثرو رسوخ سے نجات دلا کر نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا بلکہ انہیں ریاستی وسائل کی بہتر مینجمنٹ کے لیے استعمال کرنا۔
 سرکاری ملازمین کی کارکردگی اور محکموں کی خدمات کو اعلیٰ درجے تک لے جانے کے لیے کارکردگی کی بنیاد پر ترقی اور مراعات کا نظام بنانا۔
 عوام الناس اور سرکاری ملازمین کو آئے روز کی ہڑتالوں کے اثرات سے بچانے کے لیے ملازمین کے جائز مطالبات کے فوری حل کے لیے طریقہ وضع کرنا۔

معاشی اصلاحات  اورریاستی وسائل
اسلامی نظام معیشت کا نفاذ کرتے ہوئے سودی نظام کو مکمل ختم کرنا۔
نظام زکوٰۃ و عشر اور اوقاف کی قانون سازی کے ذریعے اصلاح کرنا اوراسے سیاسی عمل دخل سے آزاد کر کے اس کی حقیقی دینی روح کے مطابق پسماندہ اور غریب طبقے کی کفالت، بے روزگاری کے خاتمے اور معذوروں، بیواؤں، یتیموں اور غرباء و مساکین کی جملہ ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانا۔
 قومی خزانے اور وسائل کے ناجائز استعمال کو روکنا‘ اسراف کا خاتمہ اور سادگی کو 
فروغ دینا۔
 وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا اور مختلف طبقوں کے درمیان پائے جانے والے 
فرق کو اعتدال پر لانا۔
 خود انحصاری کی بنیاد پر معاشی ترقی اور خوشحالی کا حصول اور استحصالی نظام کا خاتمہ کرنا۔
 ہر شہری کے لیے خوراک‘ لباس‘مکان‘ علاج‘تعلیم کی ضمانت اور روز گار کے 
مواقع فراہم کرنا۔
 سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز کی پنشنوں میں مہنگائی کے تناسب سے 
اضافہ کرنا۔
 عوام‘ ملازمین اور تاجر برادری پر عائد ناروا اور ظالمانہ ٹیکسوں کا خاتمہ کرنا۔
 انصاف پر مبنی ٹیکس کلچر کو فروغ دینا  اور زمینوں کی منتقلی کے حوالے سے عائد کردہ ٹیکسوں اور NOCsکے نام پر عائد کردہ ٹیکسوں کے خاتمہ کو یقینی بنانا۔
 جموں وکشمیربنک میں غیر سودی بنکاری کو فروغ دینا اوراس کی وساطت سے بیرون                     
ملک کشمیریوں کی اربوں ڈالرز کی بچتوں کوسرمایہ کاری کے لیے بروئے کار لانا۔
 حکومت پاکستان سے NFCایوارڈ میں سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے 
اقدامات کرنا۔
 ریاست جموں وکشمیر قدرتی وسائل، معدنی ذخائر، آبی وسائل، جنگلات اور پن 
بجلی کے بے پناہ وسائل سے مالا مال ہے۔ ان وسائل کی بہتر تنظیم و ترقی اور دیانت داری سے بروئے کار لاتے ہوئے آزاد جموں وکشمیر کو نہ صرف خود انحصاری کی منزل تک پہنچایا جا سکتا ہے بلکہ اسے ایک خوش حال اور ترقی یافتہ ریاست میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی مختلف شعبہ جات میں دیانت دار، باصلاحیت اور فرش شناس ٹیم کے ساتھ ان وسائل کی ترتیب، تنظیم کے ذریعے ریاست کو بیرونی امداد یا قرضوں کی ضرورت سے نجات دلا کر خود انحصاری کی منزل سے ہم کنار کرے گی۔
 ریاستی باشندوں کے ارسال کردہ زرمبادلہ کے تناسب سے اپنا حصہ وصول کرنا۔
 پن بجلی کے منصوبوں کو فروغ دے کر صنعت کاروں کو سستی بجلی فراہم کرنا۔
 سیاحت پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے ریاست میں سیاحت کے فروغ کے ذریعے 
آمدن میں اضافہ کرنا۔
 سیاحت کے فروغ کے لیے مظفر آباد اور راولاکوٹ ایئر پورٹ فعال کرنا۔
 پاکستان کے مختلف صوبوں میں کشمیرپراپرٹی جیسے قیمتی وسائل کو بروئے کار لانااور 
انہیں بجٹ کا حصہ بنانا۔

امور نوجواناں 
نوجوان ہماری آبادی کا ساٹھ فیصد ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں نوجوانوں کا اتنا بڑا تناسب اس کی ترقی و خوشحالی اور بہتر مستقل کی ضمانت ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں اس انمول سرمائے کی بہتر تنظیم و تربیت اور اسے ریاستی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ بنانے کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ جماعت اسلامی نوجوانوں کو اعلیٰ جدید فنی و پیشہ وارانہ تعلیم، تربیت اور اخلاق و کردار کے زیور سے آراستہ کرتے ہوئے انہیں معاشرے میں قائدانہ مقام پر فائز کرے گی۔ اس سلسلے میں بذیل اقدامات کیے جائیں گے۔
 سرکاری و نیم سرکاری ملازمتوں میں پسند و نا پسند کا خاتمہ اور میرٹ کی بنیاد پر  ملازمتوں کی فراہمی۔
 نوجوانوں کے لیے باعزت خود روز گار (Self empolyment)کی فراہمی کو یقینی بنانا۔
فنی تربیت کے اداروں اور پیرا میڈیکل سنٹرز کے قیام کے ذریعے نوجوانوں کو ہنر مند بنانا‘ تا کہ وہ اندرون ملک و بیرون ملک باعزت روز گار کا اہتمام کر سکیں۔
کھیلوں اور دیگر صحت مند تفریحی سرگرمیوں کا فروغ اور آزاد کشمیر کوکھیلوں اور تفریحی سرگرمیوں میں دیگر صوبوں کے ہم پلہ لانا۔
 ہزار وں نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم و تربیت کے ذریعے اس طرح تیار کرنا کہ وہ اندرون و بیرون ملک اعلیٰ اداروں اور کمپنیوں میں کلیدی عہدوں پر فائز ہو سکیں۔

تعلیمی اصلاحات
نظام تعلیم کو ملک کی نظریاتی اساس سے ہم آہنگ کر کے طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ اور یکساں نظام تعلیم کا نفاذ کرنا۔
 معیار تعلیم کو بلند کرنااور اس مقصد کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی تعلیمی کمیشن کا قیام جو ایک مستقل ادارے کی حیثیت سے نظام تعلیم کی بہتری اور اسے اثرو رسوخ سے نجات دلا کر نظریاتی اور پروفیشنل بنیادوں پر استوار کرنے کے اقدامات کرتا رہے۔
میٹرک تک تعلیم مفت اور لازمی کرنا اور تعلیم بالغاں کو فروغ دینا۔شرح خواندگی 
میں اضافہ کرتے ہوئے پانچ سال میں شرح خواندگی سو فیصد تک یقینی بنانا۔
 آزاد کشمیر میں موجود میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز اور دیگر پیشہ وارانہ اداروں کو مستحکم کرنا اور حسب ضرورت مزید ادارے قائم کرنا، ان سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کے لیے روزگار کا اہتمام کرنا۔
آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کے انتخابات کو یقینی بنانا۔
 طلبہ و طالبات میں اسلامی اور جمہوری اقدار کو فروغ دینا۔
 خواتین کے لیے قائم شدہ یونیورسٹی اور کالجز میں سٹاف کی کمی کو پورا کرنا، نیز تعلیمی اور انتظامی دونوں شعبوں میں میرٹ پر خواتین کے تقرر کو یقینی بنانا۔
 پیشہ ورانہ خصوصی تعلیمی ادارے قائم کرنا۔
 ہر ضلع میں خصوصی بچوں کے لیے معیاری تعلیمی ادارے قائم کرنا۔
 ہر تحصیل کی سطح پر پولی ٹیکنیک اداروں کا قیام اورپرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت اندرون و بیرون ملک ضروریات کے مطابق ہنر مند افراد تیار کرنا۔قائم اداروں کے معیار اور گنجائش میں اضافہ کرنا۔
 آزاد کشمیر میں قومی ضروریات کے مطابق نصاب سازی کی استعداد پیدا کرنے کے لیے آزاد جموں وکشمیر ٹیکسٹ بک بورڈ کی نظریاتی بنیادوں پر تشکیل اور تحریک آزادی کشمیرکو ہر سطح کے نصاب میں شامل کرنا۔
 نجی اور رفاعی تعلیمی اداروں سے تعاون اور ان کے معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کشمیر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے کردار کو موثر بنانا۔
 پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے معیار کی جانچ کے لیے ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام عمل میں لانا۔قانون سازی کے ذریعے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو حکومتی وسائل سے حصہ دینا اور تمام ناروا ٹیکسز کا خاتمہ کرنا۔
 معیاری پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم کی فراہمی کے لیے ووچر سسٹم کا اجراء کرنا۔
 سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تیز رفتار ترقی کے لیے اہتمام کرنا۔
 اساتذہ کے لیے ملازمتوں کا بہتر ڈھانچہ فراہم کرنا۔
 تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرنا۔
 ہونہار،ذہین اور مستحق طالب علموں کو وظائف نیز غیر سودی طویل المیعاد قرضہ جات کی سہولت فراہم کرنا اور غریب و نادار طلبہ کو ضروری امداد فراہم کرنا۔بیرون ملک تعلیمی اداروں میں طلبہ کے لیے وظائف اورنشستیں مختص کرانا۔
 معیاری پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ضروری سہولیات فراہم کرنا۔
 دینی مدارس کے لیے بجٹ مختص کرنااور ان اداروں کو ایسا نصاب تعلیم فراہم کرنا، جو آج کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔
 محکمہ تعلیم میں سیاسی کلچر کاخاتمہ کرکے تعلیمی ماحول فراہم کرنا۔
۔     عدلیہ
 اسلامی اصولوں کے مطابق عدلیہ کے پورے نظام میں اصلاحات کرنا۔
 عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے جج صاحبان کا میرٹ پر تقرر عمل میں لانا۔جبکہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تقرر کے سلسلے میں کل جماعتی پارلیمانی کمیٹی، چیف جسٹس اور بار کی مشاورت کا اہتمام کرنا۔
 ججز کی اہلیت کا تعین اس طرح کرنا کہ وہ بہر صورت قاضی کے فرائض بھی سر انجام دے سکیں۔
جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کے لیے فیصلہ جات کے لیے مدت مقرر کرنا اور اپیل در اپیل میں ”دیوانی اور زندگانی“ کے موجودہ نظام کو درست کرنا۔
 ایسی عدالتیں قائم کرنا جو موقع پر جا کر فوری فیصلہ کر سکیں اس کے علاوہ مصالحتی عدالتوں کے نظام کو فروغ دینا۔
 ضلع اور تحصیل قاضی صاحبان کو باوسائل کرنا اور خالی آسامیوں کو پر کرتے ہوئے عدل کے نظام کو موثر بنانا، افتاء کے نظام کو موثر بنانا، اعلیٰ تعلیم کے لیے علمائے دین کو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے مواد فراہم کرنا۔
صحتِ عامہ
 ایک جامع صحت عامہ پالیسی تشکیل دینا،غریب، نادار اور مستحق افراد کو علاج معالجہ کی معیاری سہولیات کی فراہمی کے لیے اسلامی اصولوں کی روشنی میں ایسی ہیلتھ انشورنس سکیم متعارف کرانا جس کے تحت ان افراد کے علاج معالجہ کی معیاری سہولیات مفت فراہم کی جا سکیں۔
 تینوں ڈویژنل ہیڈکوارٹرز پر قائم میڈیکل کالجز کے شانہ بشانہ پیرا میڈیکل انسٹی ٹیوٹس کا قیام تا کہ آزاد کشمیر کے نوجوان ریاست میں اور بیرون ریاست پیرا میڈیکس کی ضروریات پوری کر سکیں اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کے علاوہ باعزت روزگار بھی حاصل کر سکیں۔
 عوام کے لیے اسلامی ہیلتھ کارڈ کا مسقتل نظام رائج کرتے ہوئے سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں سے مفت علاج کا اہتمام اور ادویات فراہم کرنا۔
 ڈاکٹروں کے لیے ملازمتوں کا بہتر ڈھانچہ تیار کرنااور اعلیٰ تعلیم کے لیے اندرون ملک و بیرون ملک خصوصی اہتمام کرنا۔
 چھوٹے بڑے تمام ہسپتالوں،ہیلتھ سنٹرز اور شفاخانوں میں مطلوبہ سٹاف اور ادویات کی سو فیصد فراہمی کا اہتمام کرنا۔
 دیہی علاقوں میں صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی نیز دیہی علاقوں میں تعینات ڈاکٹر صاحبان اور پیرا میڈیکل سٹاف کے لیے پرکشش پے پیکیج، مراعات اور الاؤنسز کی فراہمی  تاکہ وہ دور دراز علاقوں میں اطمینان کے ساتھ خدمات سرا نجام دے سکیں۔نیز ہر گاؤں کی سطح پر لیڈی ہیلتھ وزیٹر اور موبائل ہیلتھ یونٹس کے قیام کا اہتمام کرنا۔
 ضلعی مراکز پر علاج کی جدید سہولتوں کا اہتمام کرنا۔
 سکولوں اور کالجوں میں بچوں کی صحت(ہیلتھ سکریننگ) کا اہتمام کرنا۔
  امراض قلب،گردے، کینسر اور ہیپاٹائٹس جیسے موذی امراض کے علاج کے لیے بلاامتیاز مستحق مریضوں کو مفت علاج کی سہولت فراہم کرنا۔
 طب مشرق اورہومیوپیتھی کو فروغ دے کر ان شعبوں کے مسائل حل کرنا۔
خطے میں ناقص اشیائے خوردونوش کی باعث مہلک امراض کے حوالے سے ریسرچ اور قانون سازی کے ذریعے عوام الناس کو معیاری اشیاء کی فراہمی یقینی بنانا۔اس سلسلے میں ایک فورڈ اتھارٹی کا قیام عمل میں لانا۔
 ناقص ادویات کی روک تھام کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام عمل میں لانا۔

تحریک آزادی کشمیر
 ریاستی عوام کے حق خود ارادیت،مقبوضہ جموں وکشمیر کی آزادی اور پاکستان سے الحاق کے لیے موثر منصوبہ بندی اور جدوجہد کرنا۔ اس مقصد کے لیے آزاد جموں وکشمیر کو حقیقی بیس کیمپ بنانے کے تمام تقاضے پورے کرنا اور اس کے لیے وسائل مختص کرنا۔
 آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کے قانونی اور نظریاتی تشخص کو یقینی بناناتا کہ یہ سفارتی سطح پر بھی بھر پور کردار ادا کر سکے۔اس سلسلے میں آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے لیے بین الاقوامی پارلیمانی یونین اور ایشین یونین جیسے اداروں میں رکنیت کے حصول کااہتمام کرنا۔
  ورثاء شہداء‘معذوروں اور متاثرین کی کفالت اور ان کو معاشرے میں ممتاز مقام 
دلانااور ان کی کفالت کا موثر نظام قائم کرنا۔
 مشیر رائے شماری کا تقرر کرنا۔
جموں وکشمیر لبریشن سیل کی تشکیل نو اور اس کے لیے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے جبری کٹوتی کی بجائے بجٹ سے اس ادارے کی ضروریات پوری کرنا نیز اس ادارے کو سیاسی کارکنوں کی کفالت کی بجائے حریت کانفرنس اور دیگر متعلقہ اداروں کی مشاورت سے تحریک آزادی کشمیر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا۔
 مہاجرین کے مسائل اور ان کی آباد کاری کے حوالے سے اقدامات کرنا۔

خواتین
 خواتین کو قرآن و سنت کے مطابق حقوق دلانا اور شرعی حدود کے اندر (Women Empowerment) کا اہتمام کرنا اورانہیں معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بنانااور تعلیم و تربیت کے نظام میں یہ اہتمام کرنا کہ وہ گھر کا ایک اہم فرد ہونے کی باعث اپنا کردار بہترین طریقے سے ادا کر سکیں۔
 خواتین کو شرعی حدود کے اندر ملازمتیں اور تحفظ فراہم کرنا۔
 خواتین کی صحت کے مراکز قائم کرنا اور خواتین عملے کی تعیناتی کرنا نیز ان کی خود انحصاری کے لیے ہنر مند بنانے کا اہتمام کرنا۔شرعی حدود میں ان کے لیے صحت مند تفریح، سرگرمیوں کے لیے سہولتوں کا اہتمام کرنا۔
 خواتین سے بے جا مشقت لینے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا۔
 وراثت میں خواتین کے حقوق کے حصول کو یقینی بنانا اور اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کرنا۔
 خواتین کی خود کفالت کے لیے بلا سود قرضہ جات کے ذریعے روزگار سکیم کا اہتمام کرنا۔
صنعت اور مزدور
 آزادکشمیر میں صنعتی ترقی کے لیے اب تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی جس کے باعث بے روزگاری کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ مختلف ادوار میں انڈسٹریل ایریاز بنائے گئے لیکن وہاں بھی صنعتوں کے فروغ کے بجائے سرکاری اور سیاسی سرپرستی میں لینڈ مافیا نے قبضے کر کے ہوٹل اور پلازے بنا لیے۔ ریاست جموں وکشمیر کے روایتی کاٹیج انڈسٹری کو بھی نیست و نابود کر دیاگیا۔ جماعت اسلامی جامع صنعتی ترقی کے لیے عملی اور دور رس اقدامات کرے گی۔ ریاست کے ایک حصے سے پاک چائنہ اکنامک کاریڈور گزر رہا ہے جبکہ آزاد کشمیر کو اس کاریڈور سے منسلک کرنے کی ابھی تک کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوئی ہے۔ آزا دکشمیرکو پاک چائنہ اکنامک کاریڈور سے منسلک کرتے ہوئے یہاں صنعتی ترقی کے اقدامات کیے جائیں گے نیز کاٹیج انڈسٹری کے فروغ پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
 حقیقی صنعتی ترقی کے لیے موثر منصوبہ بندی کرنا ایگروٹیک اور لکڑی کی صنعت کو فروغ دینا۔
 بیرون ملک باوسائل ریاستی باشندوں کو سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنا۔اس سلسلے میں ہر ضلع میں انڈسٹریل اسٹیٹ قائم کرنا نیز صنعتوں کے فروغ کے لیے دس سال تک خطے کو ٹیکس فری زون بنانے کا اہتمام کرنا۔
 صنعتوں پر سے غیر ضروری ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کا خاتمہ اور سرمایہ کاری کے لیے ساز گار ماحول قائم کرنا۔
 کارخانوں میں مزدوروں کے حقوق کو یقینی بنانا‘ روز گار کو تحفظ اوریونین سازی کا حق دینا‘ تالہ بندی اور چھانٹیوں سے نجات‘ مزدوروں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرنا۔
 سیاحت کو صنعت کا درجہ دینا اور سیاحوں کے لیے سہولتوں میں اضافہ کرنا۔
 صنعتوں میں بجلی سستی شرح پر فراہم کرنے کا اہتمام کرنا۔
 مزدوراور پرائیویٹ اداروں میں ملازمین کی کم سے کم اجرت کا تعین کرنا۔

زراعت اور کسان
 آزاد کشمیر میں عوام کے پاس چھوٹے چھوٹے قطعہ ہائے اراضی ہیں جن سے روایتی زرعی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے اناج کی ضروریات پوری ہونا مشکل ہیں۔ جس کی باعث عوام الناس کی اکثریت نے کھیتی باڑی کو ترک دیا ہے۔ جبکہ جدید زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال سے ان چھوٹے قطعہ ہائے اراضی سے بھی پھلوں، سبزیوں اور اناج کی کاشت سے ریاست کی ضرورت بہت حد تک پوری کی جا سکتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ کمیونٹی فارمنگ کے تصور کو متعارف کراتے ہوئے جدید زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال سے زمینوں کو زیادہ پیدا وار حاصل کر کے عوام الناس کو خود انحصاری کی راہ پر گامزن کیاجائے۔ اس سلسلے میں زرعی ماہرین کی خدمات اور دوسرے ممالک کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے زمینوں کو کارآمداور پیداواری بنانے کی طرف توجہ دی جائے گی۔
جملہ ریکارڈ اراضی کمپیوٹرائز کرانا۔ناجائز طور پر حاصل کی گئی سرکاری زمین کی واگزاری اور مستحقین میں بلا معاوضہ تقسیم کرنا۔
 مرغ بانی‘لائیو سٹاک، مگس بانی، فشریز اور زرعی ترقی کے لیے موثر منصوبہ بندی کرنا۔
زراعت کے لیے بجلی‘ ڈیزل‘ کھاد‘ بیج اور زرعی آلات و ادویات کی سستے داموں فراہمی۔
 کسانوں کو غیر سودی قرضوں کی سہولت فراہم کرنا۔
 باغبانی اور نقد آور فصلوں کو فروغ دینااور مخصوص علاقوں میں مورنگا،زیتون، 
 چیری، اخروٹ، انار اور Citrusکی کاشت کا وسیع اور تجارتی پیمانے پر اہتمام کرنا۔
 کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ”کسان فاؤنڈیشن“ قائم کرنا۔
 کسانوں کے واجب الاداچھوٹے قرضے معاف کرنا۔

رسل و رسائل و مواصلات
 برنالہ بھمبر تا تاؤ بٹ ریاست کے سارے حصوں کو ملانے کے لیے ایک بڑی شاہراہ کی تعمیر کرنا۔
 تمام اہم اور بین الاضلاعی شاہراہوں کے لیے خصوصی بجٹ کا اہتمام کرنااور ان کو اعلیٰ معیار پر لانا۔
 ہر دیہات تک رابطہ سڑک کا اہتمام جہاں سڑکیں موجود ہیں ان کی پختگی کا اہتمام کرنا۔
 جہاں رابطہ پلوں کی ضرورت ہے انہیں بنانے کا اہتمام کرنا۔
 سیاحتی مقامات تک پختہ سڑکوں کے بنانے کا ترجیحاً اہتمام کرنا۔
 آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کو مربوط کر نے کے لیے کیل تا شونٹر استور منصوبے کی تشکیل کا اہتمام کرنا۔
 ایک کمیونیکشن اتھارٹی کا قیام جو صارفین کو فون اور انٹرنیٹ کی ازاں فراہمی یقینی بنائے۔
 ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو موثر بنانا تا کہ پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر میں موزوں ٹرانسپورٹ کے اہتمام کو یقینی بنائے اور حادثات کی روک تھام ہو سکے اور عوام کو معیاری اور سستی ٹرانسپورٹ میسر آ سکے۔
 محکمہ تعمیرات عامہ کی استعداد کار کو بڑھاتے ہوئے اس کی فعالیت میں اضافہ کرنا۔
 ٹھیکیداری نظام کی اصلاح کرتے ہوئے کنسٹریکشن کمپنی کی طرز پر باقاعدہ رجسٹریشن کے ساتھ معیار تعمیر کو بہتر بنانا اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا۔پول سسٹم 
 
سماجی فلاح و بہبود
 یتیموں‘ بیواؤں‘ معذوروں اور محتاجوں کی پرورش و سرپرستی اور خبر گیری کا اہتمام کرنے کے لیے سماجی بہبود کے تحت بامقصد ادارے قائم کرنا اور اس حوالے سے مفید کام کرنے والی غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرنا،ضعیف اور نادار افراد کے لیے گزارہ الاونس اور پنشن کا اہتمام کرنا۔
فلاحی اداروں کی رجسٹریشن کے حوالے سے آسانی پیدا کرنا۔
 ساٹھ سال سے زائد عمر کے شہریوں کے لیے معقول پنشن کا اہتمام کرنا۔
 بے سہارا بیواؤں کے لیے کم از کم بارہ ہزار روپے ماہانہ کا اہتمام کرنا۔ 
ہائیڈل پاور اورتحفظ آبی وسائل
 آزاد کشمیر میں پن بجلی کے بے پناہ وسائل قدرت کا عطیہ ہیں لیکن اسے بروئے کار لانے کی موثر منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث آبی وسائل سے مالا مال یہ ریاست لوڈ شیڈنگ جیسے عفریت کی زد میں رہتی ہے جبکہ آزا دکشمیر کی بجلی کی ضرورت صرف400میگا واٹ ہے۔ جماعت اسلامی ریاستی وسائل سے ریاستی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے واپڈا پر سے انحصار ختم کرے گی اور فاضل بجلی کی ضرورت اور نیٹ ہائیڈرل پرافٹ سے ریاستی ترقی و خوشحالی کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے گی۔اس سلسلے میں ہائیڈرو پاور بورڈ کی استعداد کو بڑھانا۔
 دریاؤں اور نالوں پر پن بجلی کے منصوبوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ریاستی وسائل میں اضافہ کرنا۔
 بجلی کے ٹیرف میں کمی کرنا اور لوڈ شیڈنگ سے نجات دلانا۔
 شمسی توانائی، ہوائی بجلی کے وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے منصوبہ جات بنانا۔
 چھوٹے چھوٹے ڈیم اور تالابوں کے ذریعے پانی کے ذخائر میں اضافہ کرنا نیز چھتوں کے پانی کو جمع کرنے(Rain Water Harvesting) کے لیے سہولتیں فراہم کرنا۔    
 نچلی سطح پر ایسے منصوبوں کے اجراء کے لیے گرانٹ /بلا سود قرضوں کا اہتمام کرنا۔

پینے کا صاف پانی
 ریاست کے ہر گھر تک پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا اہتمام کرنا۔
ہر سطح پر فلٹریشن پلانٹس لگا کر پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا۔

بلدیاتی نظام اجراء و استحکام 
 قانون سازی کے ذریعے پاکستان کی طرز پر آزاد جموں وکشمیر کے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات منعقد کرنے کے لیے با اختیار اور باوسائل بنانا تا کہ اولین فرصت میں بلدیاتی ادارے قائم ہو سکیں۔
 ہر سطح کے بلدیاتی اداروں کو اس انداز سے باوسائل بنانا تا کہ مقامی سطح پر تعمیر و ترقی کا عمل تیز ہو اور مقامی مسائل گھر کے دروازے پر حل ہو سکیں۔
 سکیم خوری کے کلچر کے خاتمے کے لیے بلدیاتی ممبران کے لیے معقول مشاہرے  کا اہتمام کرنا۔
 مقامی سطح پر ان اداروں کے تحت مصالحتی عدالتوں کا قیام عمل میں لانا تا کہ روز مرہ کے تنازعات فوری نبٹائے جا سکیں۔ 
 ضلعی اور مقامی سطح پر تمام حکومتی اداروں کو ان اداروں کے سامنے جواب دہ بنانے کے لیے اہتمام کرنا۔

جنگلات و ماحولیات
 جنگلات کی غیر ضروری کٹائی کا تدارک اور اراضی کا تحفظ کرنا۔
 ایندھن کے لیے بائیو گیس اور قدرتی گیس‘سولر انرجی اور دیگر ذرائع کو فروغ دینا۔
 تجدید جنگلات کا اہتمام کرنا۔
 ٹمبر مافیا کا خاتمہ کرنا۔
 جنگلات کی آمدنی سے مقامی آبادی کو مستفید کرنا۔
 ہر ضلع میں عوام الناس کو تعمیراتی لکڑی کی فراہمی یقینی بنانا۔

مہاجرین جموں وکشمیر
 نئے اور پرانے مہاجرین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا۔
 ملازمتوں اور پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں میں مہاجرین کے لیے مختص کوٹہ پر عمل درآمد یقینی بنانا۔
 زیر التوا بحالی کی سکیموں کو مکمل کرنا‘الاٹیز کو مالکانہ حقوق و قبضہ فراہم کرنااور مہاجرین کے لیے مزید بحالی سکیموں کا اجراء کرنا۔
 مہاجرین کی فلاح و بہبود کے لیے فنڈز میں اضافہ کرنا اور فنڈز کی منصفانہ اور شفاف تقسیم کو یقینی بنانا۔
 زلزلہ2005ء اور2018ء کے متاثرین کی مدد و بحالی کے لیے بے گھر بالخصوص متاثرین کیمپوں میں مقیم مہاجرین کی فوری آباد کاری کا اہتمام کرنا۔
 پشتینی سر  ٹیفکیٹ‘ڈومیسائل‘ شناختی کارڈ کے حصول کو سہل بنانا۔

متاثرین زلزلہ کی بحالی
 زلزلہ زدہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے وسائل کے بہترین استعمال کی منصوبہ بندی اور شفاف طریقے سے زیر تکمیل یا زیر التوا منصوبہ جات، سکولز، ہسپتال، دفاتر،سڑکوں وغیرہ کی تعمیر اور تکمیل کا اہتمام کرنا۔
متاثرین کے نقصانات کا ازالہ اور اس عمل میں عوام کی شرکت کو یقینی بنانا۔
 بیواؤں‘ یتیموں کی کفالت‘ بے گھر لوگوں کو چھت کی فراہمی اور زلزلے سے ناقابل استعمال رہائشی اراضی کے متبادل اراضی فراہم کرنا نیز چھوٹے قرضوں کی معافی کا اہتمام کرنا۔
 تعمیر نو کی مد میں 56ارب روپے جو حکومت پاکستان کے ذمہ واجب الادا ہیں کی واپسی کا اہتمام کرتے ہوئے زیر کار منصوبوں کو مکمل کرنا۔

متاترین منگلا ڈیم کے مسائل 
 منگلا ڈیم اپ ریزنگ کے حوالے سے طے شدہ معاہدے کو متاثرین کے حق میں بہتر اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا نیز سابقہ متاثرین کی بحالی کا اہتمام کرنا۔
 منگلا ڈیم کی رائیلٹی کا حصول اور اسے آزاد جموں وکشمیر کی تعمیر و ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنا۔
 متاثرین جو ابھی تک بحال نہیں ہو سکے،کو مناسب زمین کی الاٹمنٹ اور مکمل بحالی کا اہتمام کرنا۔
 پوری ریاست سے لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ کرنا۔

سمندر پار کشمیری
 بیرون ملک مقیم کشمیری جو قیمتی زر مبادلہ کا ذریعہ ہیں‘ آزادکشمیر میں ان کے حقوق و مفادات کا تحفظ کرنا۔
 آزاد جموں وکشمیر میں صنعتوں کے قیام میں ان کو خصوصی سہولیات فراہم کرنا، اور انہیں دس سال تک ٹیکسوں سے چھوٹ دلانا۔
سمندر پار مقیم کشمیریوں کے مسائل حل کرنے کے لیے فاؤنڈیشن اور شعبہ کا قیام عمل میں لانا۔
سمندر پار ریاستی باشندوں کی نئی نسل کو ریاست اور اپنی تاریخی روایات کے ساتھ جوڑنے اورمناسب ماحول پیدا کرنے کے لیے کشمیر سنٹرز قائم کرنا اور اس کے لیے ضروری اقدامات کرنا۔ 
  نوجوانوں کے لیے ایسے ٹور لیکچرز کا اہتمام کرنا جو ریاست کے ساتھ ان کے تعلق اور رغبت کا باعث بن سکیں۔
 سمندر پار کشمیریوں کوآمدورفت کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے ضلع میرپور میں بین الاقوامی ایئرپورٹ کے قیام کو عملی جامہ پہنانااور دوسرے ایئر پورٹس کو بھی اپ گریڈ کرنا۔
 سمندر پار پاکستانیوں کی جائیدادوں اور اثاثہ جات کو قبضہ مافیا سے تحفظ دینے کے لیے موثر اقدامات کرنا۔

آزادی صحافت اور میڈیا
 آزادی صحافت اور اظہار رائے پر ناروا پابندیوں کا خاتمہ اور انہیں دینی اور قومی اقدار سے ہم آہنگ کرنا۔
 الیکٹرانک میڈیا کو فروغ دینا اور سرکاری تسلط کا خاتمہ کرنا۔
 اطلاعات تک رسائی قانون سازی کی روشنی میں اقدامات کرنا۔
 صحافیوں کی فلاح و بہبود کے منصوبے تشکیل دینا۔ نیز قومی ویج بورڈ کی سفارشات کے مطابق صحافیوں کے باعزت روز گار کا اہتمام کرنا۔
آزاد جموں وکشمیر ٹیلی ویژن اور ریڈیوسیٹشنوں کو نظریاتی اور تحریک آزادی کشمیر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے وسائل فراہم کرنا۔
 ریاستی اخبارات اور میڈیا کے اداروں کی حوصلہ افزائی کرنا۔
 آزاد کشمیر کی جامعات میں ماس کمیونیکیشن کی تعلیم کا انتظام کرنا۔

پولیس اور انتظامیہ 
 انتظامیہ کو دیانت دار اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار بنانے کے لیے 
 اقدامات کرنا اور انتظامیہ کو عوام کا حاکم نہیں بلکہ خادم بنانا۔
تمام سطحوں پر قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا۔
موجودہ پولیس کے نظام کو مکمل طور پر تبدیل کرنا اور تھانوں کو عوامی خدمت اور امن مراکز کی حیثیت دینا۔
 محکمہ پولیس سے بد عنوانی کے خاتمے کے لیے پولیس کی تنخواہوں اور مراعات کو مناسب سطح پر لانا۔
 پولیس اور انتظامیہ کے افسران کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت اور ان کی پیشہ وارانہ مہارت میں اضافے کے لیے اقدامات کرنا۔
 جیلوں میں قیدیوں کے لیے اصلاحات کرنا‘ تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا‘ جیلوں کو بہترین تربیت گاہوں میں تبدیل کرنا۔معموملی مقدمات میں قید ہونے والے قیدیوں کو مفت قانونی امداد سے رہائی دلوانا۔
 تھانوں میں رسل ورسائل کی سہولت اور وسائل فراہم کرنا۔

مساجد و مدارس
 اسلامی معاشرے میں مسجد کا مرکزی کردار بحال کرنا۔علمائے کرام کے لیے مناسب روز گار کا اہتمام کرنا۔ہر امام مسجد کے لیے باوقار سرکاری مشاہرہ کا اہتمام کرنا۔
 مدارس کے طلبہ کو جدید تعلیمی سہولتیں فراہم کرنا۔
 غریب اور نادار طلبہ کے لیے وظائف کا اہتمام کرنا۔
 معاشرے میں علماء کرام کے قائدانہ کردار اور ان کے باعزت مقام کے لیے اقدامات کرنا۔
 سرکاری ملازمتوں میں عربی اداروں کے فارغ التحصیل طلبہ کو منصفانہ مواقع فراہم کرنا۔
 مدارس کے لیے بجٹ مختص کرنا۔
 مسجد مکتب سکیم کے اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ کرناتاکہ وہ باعزت گزارہ کرسکیں۔
اتحاد امت کے لیے اقدامات کرنا۔
احتساب
 آزاد کشمیر میں احتساب بیورو کی تشکیل نو کرتے ہوئے ایک قابل اعتبار، با اختیار، 
 دیانت دار اور شفاف احتساب کا نظام وضع کرنا جو سب کا بلا تفریق احتساب کر 
 سکے۔
  متحرک اور بلا امتیاز شفاف احتساب اور اس کے لیے مطلوبہ قانون سازی کے 
 ذریعے عملی اقدامات کرنا۔
 غیر ضروری پروٹوکول کلچر کو ختم کر کے سادگی کو فروغ دینا۔
 سرکاری اور حکومتی مناصب پر فائز رہنے والے تمام افراد کے اثاثہ جات کی 
 دیانتدارانہ چھان بین کرنا اور قومی وسائل سے لوٹ مار کر کے جمع کردہ وسائل اور 
 اثاثے بحق سرکار ضبطی کا اہتمام کرنا۔
 ڈویژنل سطح پر احتساب کورٹس قائم کرنا۔

تبصرے

Contact Us

نام

ای میل *

پیغام *

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جماعت اسلامی کو لوگ ووٹ کیوں نہیں دیتے؟

میں کون ہوں؟