قربانی سے جڑا معاشیاتی سائیکل
دنیا میں 2008 - 2009 میں ایک مالیاتی بحران آیا, پوری دنیا, اور گلف کی امیر ترین ریاستیں بھی اس سے شدید متاثر ہوئیں. ایسے میں آسٹریلوی ماہرین اقتصادیات نے اس بحران کے آسٹریلیا میں پڑنے والے اثرات سے نمٹنے کے لئے حکومت کو ایک انوکھی تجویز دی جسکے مطابق آسٹریلوی حکومت نے مئی 2009 میں ہر اپنے ایسے آسٹریلوی شہری کو جس کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ ڈالر سے کم تھی 900$ کے چیک دئے, یہ اس وقت کی کرنسی ویلو میں تقریبا 70 سے اسی ہزار پاکستانی روپے بنتے تھے.
اس رقم کے وصول کرنے والے ہر شہری سے بس اتنی گزارش کی گئی تھی کہ وہ اس رقم کو محفوظ نا کریں بلکہ اسے اپنی ضروریات زندگی کی ایسی چیزیں خریدنے میں استعمال کریں جو آسٹریلیا میں تیار کی جاتی ہیں. اس پورے عمل میں آسٹریلوی حکومت نے 42 بلین ڈالر کی رقم اپنے شہریوں میں تقسیم کی۔ آسٹریلوی Treasurer نگراں امور مالیات و خزانہ Wayne Maxwell Swan نے اس اسکیم کو اناونس کرتے ہوئے کہا کہ یہ رقم آسٹریلیا کی اکانومی کو انتہائی ضروری بنیادی مدد فراہم کرے گی۔
اس کے بعد آسٹریلوی ریٹیلرز کی بمپر سیلز ہوئیں، کیونکہ لوگوں نے کپڑوں اور دیگر ضروریات زندگی پر دل کھول کر خرچہ کیا۔ میلبرن سٹی کے ریٹیلرز کے مطابق انکی سیل نے ایسٹر کی سیلز کو بھی پیچھے چھوڑ دیا. ایسا بھی ہوا کہ ایک اکیلی عورت آئی اور 900$ کی خریداری کر گئی۔ اس بڑی خریداری مہم سے جہاں آسٹریلوی صنعتوں میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے وہاں حکومت کو ریکارڈ ٹیکس آمدنی بھی ہوئی۔
اب آ جائیں اسلامی تہوار عید الاضحی پر، سال 2017 میں تقریبا 35 لاکھ گائیں قُربان کی گئیں، جن کی مالیت کا تخمینہ 180 ارب روپے، 80 لاکھ بکرے جن کی مالیت کا اندازہ قریبا 100 ارب روپے، 8 ارب روپے کے دُنبے اور 80 ہزار اونٹوں کی قربانی کی گئی جن کی مالیت کا اندازہ بھی قریبا 5 ارب کے قریب لگایا جاتا ہے۔ جانوروں کے لانے اور لے جانے کے کرائے کی مد میں 5 ارب روپے خرچے گئے جبکہ اندازہ 10 ارب روپے کی کھالیں فروخت کی گئیں۔
عید الفطر کی نسبت عید القربان پر لوگوں کی توجہ شاپنگ کی طرف کم ہوتی ہے لیکن پھر بھی بازاروں میں 200 ارب روپے کی شاپنگ کی گئی، جس میں خصوصی طور پر، کپڑوں، جیولری، جوتے، کاسمیٹکس اور دیگر مصنوعات کی خرید و فروخت کی گئی۔
اگر پاکستانیوں کی جانب سے صرف 2017 کی عید الاضحی پر خرچ کی جانے والی کل رقوم کا اندازہ لگایا جائے تو یہ 500 ارب روپے سے تجاوز کر جاتی ہیں۔ آسٹریلوی حکومت نے مالیاتی بحران پر قابو پانے کے لئے ملکی تاریخ میں پہلی اور شاید آخری بار یہ رقم آسٹریلوی مارکیٹ میں ڈالی تھی، جبکہ ہم ہر سال، اسی جوش و جزبے سے قُربانی کرتے ہیں اور انشاءاللہ کرتے رہیں گے۔
میں خود ایک کیٹل فارمر ہوں میں بہت تفصیل سے اس پر بات کر سکتا ہوں کہ اس سے ہماری درجنوں انڈسٹریز چلتی ہیں، اس سے لیدر انڈسٹری چلتی ہے، اس سے ہماری کیٹل فیڈ کی انڈسٹری چلتی ہے، کیٹل فیڈ میں کوئی 2 درجن اجناس استعمال ہوتی ہیں ہر جنس کی اپنی ایک الگ انڈسٹری ہے، ان اجناس کی خرید و فروخت سے غلہ منڈی میں اربوں کا بیوپار ہوتا یے، کھاد، بیج، ہل، ٹریکٹر سے متعلقہ ساری صنعتوں کا پہیہ حرکت میں آ جاتا ہے۔
اسکا معاشرتی پہلو تو ہے ہی کہ قربانی میں آپکی فیملی،، آپکے عزیز و اقارب، اور غرباء و مساکین کے تین برابر حصے ہیں۔ ہر مسلمان ایسے ہی قربانی کرتا ہے، اور اسکا گوشت ایسے ہی استعمال ہوتا ہے، ایک بوٹی بھی ضائع نہیں ہوتی۔ اس گوشت پر ہماری سوشل گیدرنگز ہوتی ہیں، ہیومن ویلفیئر کا کام ہوتا ہے لیکن میں اس کے اکنامک پہلو پر پوری کتاب لکھ سکتا ہوں کہ یہ ڈھور ڈنگر، یہ کٹرے بچھڑے اپنے فارمر سے لے کر ٹرانسپورٹیشن، خوراک سے لے کر کسان، اور فارم سے لے کر اسکی مینٹیننس اور لیبر تک کروڑوں لوگوں کا روزگار چلاتے ہیں۔
اس عظیم الشان فائنینشل ایکٹیویٹی سے یہ سرمایہ دولت کے مراکز سے نکل کر انڈسٹری, مارکیٹ, اور پھر گاوں گاوں کھیتوں میں کھلتی کونپلوں تک منتقل ہو جاتا ہے. قربانی پر اعتراض کرنے والے لنڈے کے دانشور اگر سمجھیں تو اسلام کا تصور ذکواۃ اور دو عیدیں اتنا بڑا فائنینشل سرکل بناتی ہیں کہ دنیا کی معیشتیں اس پر حیران رہ جائیں. آپ یقین رکھیں مغرب کی ویلفئیر ریاستیں اسلام کے اقتصادی نظام کے مقابلے کچھ بھی نہیں بیچتِیں, ایسے تو نہیں محسن اعظم حضرت عمر فاروق کے دور میں ڈھونڈے سے بھی ذکواۃ لینے والا نہیں ملتا تھا.
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں