آج کا سبق
تفہیم القرآن
مفسر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
سورۃ نمبر 9 التوبة
آیت نمبر 55
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَلَا تُعۡجِبۡكَ اَمۡوَالُهُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُهُمۡؕ اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمۡ بِهَا فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَتَزۡهَقَ اَنۡفُسُهُمۡ وَهُمۡ كٰفِرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اِن کے مال و دولت اور اِن کی کثرتِ اولاد کو دیکھ کر دھوکا نہ کھاوٴ، اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اِنہی چیزوں کے ذریعہ سے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی مبتلائے عذاب کرے54 اور یہ جان بھی دیں تو اِنکارِ حق ہی کی حالت میں دیں۔55
تفسیر:
سورة التَّوْبَة 54
یعنی اس مال و اولاد کی محبت میں گرفتار ہو کر جو منافقانہ رویہ انہوں نے اختیار کیا ہے، اس کی وجہ سے مسلم سوسائٹی میں یہ انتہائی ذلیل و خوار ہو کر رہیں گے اور وہ ساری شان ریاست اور عزت و ناموری اور مشخیت و چودھراہٹ، جو اب تک عربی سوسائٹی میں ان کو حاصل رہی ہے، نئے اسلامی نظام اجتماعی میں وہ خاک میں مل جائے گی۔ ادنی ادنی غلام اور غلام زادے اور معمولی کاشتکار اور چرواہے، جنہوں نے اخلاص ایمانی کا ثبوت دیا ہے، اس نئے نظام میں باعزّت ہوں گے، اور خاندانی چودھری اپنی دنیا پرستی کی بدولت بےعزت ہو کر رہ جائیں گے۔
اس کیفیت کا ایک دلچسپ نمونہ وہ واقعہ ہے جو ایک دفعہ حضرت عمر (رض) کی مجلس میں پیش آیا۔ قریش کے چند بڑے بڑے شیوخ، جن میں سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام جیسے لوگ بھی تھے، حضرت عمر (رض) اسے اپنے پاس بلا کر بٹھاتے اور ان شیوخ سے کہتے کہ اس کے لیے جگہ خالی کرو۔ تھوڑی دیر میں نوبت یہ آئی کہ یہ حضرات سرکتے سرکتے پائین مجلس میں پہنچ گئے۔ باہر نکل کر حارث بن ہشام نے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگوں نے دیکھا آج ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوا ؟ سہیل بن عمرو نے کہا اس میں عمر کا کچھ قصور نہیں، قصور ہمارا ہے کہ جب ہمیں اس دین کی طرف دعوت دی گئی تو ہم نے منہ موڑا اور یہ لوگ اس کی طرف دوڑ کر آئے۔ پھر یہ دونوں صاحب دوبارہ حضرت عمر (رض) کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آج ہم نے آپ کا سلوک دیکھا، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہے، مگر اب اس کی تلافی کی بھی کوئی صورت ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے زبان سے کچھ جواب نہ دیا اور صرف سرحد روم کی طرف اشارہ کردیا۔ مطلب یہ تھا کہ اب میدان جہاد میں جان و مال کھپاؤ تو شاید وہ پوزیشن پھر حاصل ہوجائے جسے کھو چکے ہو۔
سورة التَّوْبَة 55
یعنی اس ذلت و رسوائی سے بڑھ کر مصیبت ان کے لیے یہ ہوگی کہ جن منافقانہ اوصاف کو یہ اپنے اندر پرورش کر رہے ہیں ان کی بدولت انہیں مرتے دم تک صدق ایمانی کی توفیق نصیب نہ ہوگی اور اپنی دنیا خراب کرلینے کے بعد یہ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوں گے کہ آخرت بھی خراب بلکہ خراب تر ہوگی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں