آج کا سبق



القرآن - سورۃ نمبر 9 التوبة
آیت نمبر 50

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنۡ تُصِبۡكَ حَسَنَةٌ تَسُؤۡهُمۡ‌ ۚ وَاِنۡ تُصِبۡكَ مُصِيۡبَةٌ يَّقُوۡلُوۡا قَدۡ اَخَذۡنَاۤ اَمۡرَنَا مِنۡ قَبۡلُ وَيَتَوَلَّوْا وَّهُمۡ فَرِحُوۡنَ ۞

ترجمہ:
تمہارا بھلا ہوتا ہے تو انہیں رنج ہوتا ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ منہ پھیر کر خوش خوش پلٹتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اچھا ہوا ہم نے پہلے ہی اپنا معاملہ ٹھیک کر لیا تھا

تفہیم القرآن
مفسر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

سورۃ نمبر 9 التوبة
آیت نمبر 51

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلْ لَّنۡ يُّصِيۡبَـنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَـنَا ۚ هُوَ مَوۡلٰٮنَا ‌ ۚ وَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۞

ترجمہ:
ان سے کہو ” ہمیں ہر گز کوئی ﴿بُرائی یا بھلائی﴾ نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے۔ اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے، اور اہلِ ایمان کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔51“

تفسیر:
سورة التَّوْبَة 51
” یہاں دنیا پرست اور خدا پرست کی ذہنیت کے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ دنیا پرست جو کچھ کرتا ہے اپنے نفس کی رضا کے لیے کرتا ہے اور اس کے نفس کی خوشی بعض دنیوی مقاصد کے حصول پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ مقاصد اسے حاصل ہوجائیں تو وہ پھول جاتا ہے اور حاصل نہ ہوں تو اس پر مردنی چھا جاتی ہے۔ پھر اس کا سہارا تمام تر مادی اسباب پر ہوتا ہے۔ وہ سازگار ہوں تو اس کا دل بڑھنے لگتا ہے اور ناسازگار ہوتے نظر آئیں تو اس کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ بخلاف اس کے خدا پرست انسان جو کچھ کرتا ہے اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے اور اس کام میں اس کا بھروسہ اپنی قوت یا مادی اسباب پر نہیں بلکہ اللہ کی ذات پر ہوتا ہے۔ راہ حق میں کام کرتے ہوئے اس پر مصائب نازل ہوں یا کامرانیوں کی بارش ہو، دونوں صورتوں میں وہ یہی سمجھتا ہے کہ جو کچھ اللہ کی مرضی ہے وہ پوری ہو رہی ہے۔ مصائب اس کا دل نہیں توڑ سکتے اور کامیابیاں اس کو اتراہٹ میں مبتلا نہیں کرسکتیں۔ کیونکہ اول تو دونوں کو وہ اپنے حق میں خدا کی طرف سے سمجھتا ہے اور اسے ہر حال میں یہ فکر ہوتی ہے کہ خدا کی ڈالی ہوئی اس آزمائش سے بخیریت گذر جائے۔ دوسرے اس کے پیش نظر دنیوی مقاصد نہیں ہوتے کہ ان کے لحاظ سے وہ اپنی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ کر ے۔ اس کے سامنے تو رضائے الہٰی کا مقصد وحید ہوتا ہے اور اس مقصد سے اس کے قریب یا دور ہونے کا پیمانہ کسی دنیوی کامیابی کا حصول یا عدم حصول نہیں ہے بلکہ صرف یہ امر ہے کہ راہ خدا میں جان و مال کی بازی لگانے کا جو فرض اس پر عائد ہوتا تھا اسے اس نے کہاں تک انجام دیا۔ اگر یہ فرض اس نے ادا کردیا ہو تو خواہ دنیا میں اس کی بازی بالکل ہی ہر گئی ہو لیکن اسے پورا بھروسا رہتا ہے کہ جس خدا کے لیے اس نے مال کھپایا اور جان دی ہے وہ اس کے اجر کو ضائع کرنے والا نہیں ہے۔ پھر دنیوی اسباب سے وہ آس ہی نہیں لگاتا کہ ان کی سازگار حالات میں بھی اسی عزم و ہمت کے ساتھ کام کیے جاتا ہے جس کا اظہار اہل دنیا سے صرف سازگار حالات ہی میں ہوا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرمایا ہے کہ ان دنیا پرست منافقین سے کہہ دو کہ ہمارا معاملہ تمہارے معاملہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ تمہاری خوشی و رنج کے قوانین کچھ اور ہیں اور ہمارے کچھ اور تم اطمینان اور بےاطمینانی کسی اور ماخذ سے لیتے ہو اور ہم کسی اور ماخذ سے۔

تبصرے

Contact Us

نام

ای میل *

پیغام *

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جماعت اسلامی کو لوگ ووٹ کیوں نہیں دیتے؟

میں کون ہوں؟