بخشیش(TIP)



ریڑھی بان سامان اُتارنے کے بعد وصولی پر دستخط کروا کر بھی کھڑا تھا ۔ کاؤنٹر پر بیٹھے شخص نے پوچھا “ جی “
ریڑھی والا بولا “ جی کوئ انعام شنام ؟” دکاندار نے پُوچھا “ آپ کو یہ مال میری دکان تک پہنچانے کے لئے کمپنی نے آپ کو کرایہ نہیں دیا ؟”
وہ بولا “ وہ تو دیا ہے جی مگر آپ بھی تو کوئ انعام شنام دیں ناں “ کس کام کا انعام ؟ “ دکاندار نے پُوچھا “ سامان یہاں لانے کا “ ریڑھی والے نے جواب دیا ۔ دکاندار نے اُس سے کہا کہ تمہیں یہاں تک سامان پہنچانے کا معاوضہ کمپنی نے ادا کر دیا ہے تو پھر میں کیوں کُچھ دوں ؟ جس کے جواب میں وہ ریڑھی والا بُڑبڑاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
ہمارے ہاں اس طرح بخشیش، انعام یا ٹپ مانگنا تقریباً ہر جگہ ہی پایا جاتا ہے کسی ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے جائیں تو کھانے کے بل میں سروس چارجز ڈلے ہونے کے باوجود ویٹر، گیٹ کیپر اور پارکنگ والا آپ سے بخشیش چاہتا ہے ۔کسی ہوٹل میں قیام کریں تو وہاں بھی آپ کا سامان کمرے تک پہنچانے والے سے گیٹ کیپر تک آپ سے ٹپ کے تمنائی ہوتے ہیں ۔
اس بخشیش یا ٹپ کی بھیانک ترین صورت ہسپتالوں میں نظر آتی ہے جہاں ماسوائے ڈاکٹرز کے تمام کا تمام عملہ ہمہ وقت ٹپ وصولنے کے چکر میں رہتا ہے۔ عملہ صفائ سے لے اسٹریچر کھینچنے والے تک سب کے سب مریض کے لواحقین سے پیسے اینٹھنے میں لگے رہتے ہیں۔
سُپر سٹورز کے ملازمین بھی سامان کی ٹرالی گاڑی تک پہنچا کر انعام کے طلب گار ہوتے ہیں ۔بڑے بڑے سپیشلسٹ ڈاکٹرز کا پرسنل سٹاف مریض کو اپوائنٹمنٹ دینے کا بھی صلہ چاہ رہے ہوتے ہیں۔
کسی بھی خدمت گار کی کارکردگی سے خوش ہو کر اُسے کوئی انعام اکرام دینا کوئ بُری بات نہیں ہے لیکن ملازمین کی طرف سے اسے لازمی طور پر وصولنا توکسی بھی طور مناسب طرز عمل نہیں ہے۔اس سے کم آمدن والے لوگوں  پر ناروا مالی بوجھ پڑتا ہے۔ ہسپتالوں میں داخل مریضوں کے لواحقین جو پہلے ہی ڈاکٹرز کی بھاری فیسوں اور ادویات کے خرچ تلے دبے ہوتے ہیںاُن کیلئے ایسی بخشیش یا ٹپ دینا نہایت مُشکل ہوتا ہے۔ 
بخشیش یا ٹپ کی وصولی گدا گری جیسا عمل ہی ہے۔اسے ہر جگہ پر ہر صورت بند ہونا چاہئیے۔
تنویر بیتاب

تبصرے

Contact Us

نام

ای میل *

پیغام *

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جماعت اسلامی کو لوگ ووٹ کیوں نہیں دیتے؟

میں کون ہوں؟