اَسی گَلاں اِی کردے رہ گئے تے تَرکھاناں دَا مُنڈا بازی لے گیا..


 

یوم ِ شہادت غازی علم دین شہید
31 اکتوبر 1929

غازی علم الدین شھید جنہوں نے گستاخِ رسول "راجپال" کو جہنم رسید کرکے وہ کارنامہ انجام دیا جس پر رہتی دنیا کے مسلمان اُن پر نازکرتے رہیں گے.. علامہ اقبال کو جب معلوم ہوا کہ ایک اکیس سالہ اَن پڑھ' مزدور پیشہ نوجوان نے گستاخِ رسول راجپال کو جرأت وبہادری کے ساتھ قتل کردیا ہے تو انہوں نے کہا.. "اَسی گَلاں اِی کردے رہ گئے تے تَرکھاناں دَا مُنڈا بازی لے گیا.." (ہم باتیں ہی بناتے رہے اور بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا)

غازی علم دین شہید 3 دسمبر 1908 کو لاہور کے ایک علاقے کوچہ چابک سوارں میں پیدا ہوئے.. آپ کے والد کا نام طالع مند تھا جو کہ نجار یعنی لکڑی کے کاریگر تھے.. غازی علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کے ایک مدرسے میں حاصل کی.. تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے آبائی پیشہ کو اختیار کیا اور اس فن میں اپنے والد اور بڑے بھائی میاں محمد امین کی شاگردی اختیار کی..

لاہور کے ایک ناشر راج پال نے بدنام زمانہ کتاب شائع کی جس پر مسلمانوں میں سخت اضطراب پیدا ہوگیا.. مسلمان رہنماؤں نے انگریز حکومت سے اس دل آزار کتاب کو ضبط کرانے اور ناشر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا.. مجسٹریٹ نے ناشر کو صرف چھ ماہ قید کی سزا سنائی جس کے خلاف مجرم نے نے ہائی کورٹ میں اپیل کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کردیا.. انگریز حکومت کی عدم توجہی پر مایوس ہو کر مسلمانوں نے متعدد جلسے جلوس منعقد کئے مگر انگریز حکومت نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کرکے الٹا مسلمان رہنماؤں کو ہی گرفتار کرنا شروع کردیا.. مسلمانوں میں یہ احساس جاگزیں ہونے لگا کہ حکومت وقت ملعون ناشر کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور یہ کہ اس ملعون کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے ان کو خود ہی کچھ کرنا ہوگا..

لاہور کے ایک غازی خدابخش نے 24 ستمبر 1928 کو اس گستاخ کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا تاہم یہ بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگيا.. غازی خدا بخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزا سنائی گئی.. افغانستان کے ایک غازی عبدالعزیز نے لاہور آکر اس شاتم رسول کی دکان کا رخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا.. اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا.. غازی عبدالعزیز نے غلط فہمی میں اس کو راج پال سمجھ کر اس پر حملہ کرکے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا.. غازی عبدالعزیز کو حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنائی..

راج پال ان حملوں کے بعد نہایت خوفزدہ رہنے لگا.. حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو سپاہیوں اور ایک سکھ حوالدار کو اس کی حفاظت پر متعین کردیا.. راج پال کچھ عرصے کےلئے لاہور چھوڑ کر کاشی' ہردوار اور متھرا چلا گیا مگر چند ماہ بعد ہی واپس آگیا اور دوبارہ اپنا کاروبار شروع کردیا..

دلی دروازہ سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ تھا.. یہاں سے جو آواز اٹھتی پورے ہندوستان میں گونج جاتی.. علم دین ایک روز حسب معمول کام پر سے واپس آتے ہوئے دلی دروازے پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر رک گئے.. انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا تو پتا چلا کہ راجپال نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کتاب چھاپی ہے اس کے خلاف تقریریں ہو رہی ہیں.. کچھ دیر بعد ایک اور مقرر آئے جو پنجابی زبان میں تقریر کرنے لگے.. یہ علم دین کی اپنی زبان تھی.. تقریر کا ماحصل یہ تھا کہ راجپال نے ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے وہ واجب القتل ہے.. اسے اس شر انگیزی کی سزا ضرور ملنی چاہیے..

علم دین گھر پہنچے تو والد سے تقریر کا ذکر کیا.. انہوں نے بھی تائید کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرنے والے بداندیش کو واصلِ جہنم کرنا چاہیے.. وہ اپنے دوست "رشید" سے ملتے اور راجپال اور اس کی کتاب کا ذکر کرتے لیکن پتا نہیں چل رہا تھا کہ راجپال کون ہے' کام کیا کرتا ہے اور اس کا حلیہ کیا ہے..؟ رشید کے ایک دوست کے ذریعے معلوم ہوا کہ شاتمِ رسول ہسپتال روڈ پر کتابوں کی دکان کرتا ہے..

پھر ایک روز بیرون دہلی دروازہ درگاہ شاہ محمود غوثؒ کے احاطہ میں مسلمانوں کا ایک فقیدالمثال اجتماع ہوا جس میں عاشقِ رسول' امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒنے بڑی رقت انگیز تقریر کی.. علم دین اپنے والد کے ہمراہ اس میں موجود تھے.. اس تقریر نے اُن کے دل پر بہت اثر کیا..

انار کلی میں ہسپتال روڈ پر عشرت پبلشنگ ہاؤس کے سامنے ہی راجپال کا دفتر تھا.. 6 اپریل 1929ء ہفتہ کے روز اڑھائی بجے دن علم دین دفتر کے اندر داخل ہوئے.. راجپال نے درمیانے قد کے گندمی رنگ والے جوان کو اندر داخل ہوتے دیکھ لیا لیکن وہ سوچ بھی نہ سکا کہ موت اس کے اتنے قریب آچکی ہے.. پلک جھپکتے میں چھری نکالی' ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور چھری کے پے درپے وار کر کے اسے واصل جہنم کر دیا.. راجپال کے منہ سے صرف ہائے کی آواز نکلی اور وہ اوندھے منہ زمین پر جا پڑا.. علم دین الٹے قدموں باہر نکلے.. پھر اس خیال سے کہ وہ کہیں زندہ نہ بچ جائے' دوبارہ جا کر تسلی کی.. واپس جاتے ہوئے پولیس نے پکڑ لیا..

غازی علم دین نے گرفتاری سے لے کر عدالت اور تختہ دار تک شاتم رسول کو واصل جہنم کرنے کا برملا اظہار کیا.. سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ (پریوی کونسل) تک غازی علم دین شہید کی سزائے موت برقرار رہی.. لاہور پنجاب کا مرکز اور پرجوش مسلمانوں کا خطہ تھا.. انگریز سرکار نے غازی علم دین کو سزائے موت دینے کے لئے اسے 14 اکتوبر کو سنٹرل جیل میانوالی میں منتقل کر دیا.. ضلع میانوالی برصغیر پاک و ہند کا اس وقت دور افتادہ پسماندہ علاقہ تھا جہاں ذرائع ابلاغ اور رابطے انتہائی محدود تھے.. پھانسی دینے کے غرض سے عظیم عاشق رسول حضرت غازی علم الدین شہید کو جب میانوالی منتقل کیا گیا تو اس کے ردعمل میں یہاں کے لوگوں اور مذہبی اکابرین نے احتجاج کرتے ہوئے جلسے جلوس نکالے اور گرفتاریاں دیں..

روایات کے مطابق غازی علم دین نے 27 تا 30 اکتوبر تک اپنے عزیزوں سے آخری ملاقات کی.. اس دوران رشتہ داروں کو رونے سے روک دیا اور تسلیاں دیتے رہے.. سزائے موت کا قیدی ہونے کے باوجود جیل میں غازی علم دین کے چہرے پر کبھی افسردگی اور غمناکی نظر نہ آئی.. غازی علم دین علی الصبح عبادت و نوافل کے بعد خود چل کر پھانسی گھاٹ گئے.. جیل افسران اور اہلکار ان کو جیل کوٹھڑی میں روز اول سے تختہ دار تک استقامت' صبر و تحمل اور مزاج میں تحمل دیکھ کر حیران اور ششدر تھے کہ سزائے موت کا ایسا قیدی انہوں نے زندگی بھر نہیں دیکھا..

غازی علم الدین کو 31 اکتوبر 1929ء کو پھانسی دے دی گئی.. جیل انتظامیہ نے جسد خاکی چارپائی پر ڈال کر جیل کے باہر لانے کا انتظام کر رکھا تھا جہاں مسلمانوں نے چہرہ دیکھنے کے لئے چارپائی کے گرد گھیرا ڈال دیا.. پولیس پرامن ہجوم کو منتشر کرکے چار پائی کو اٹھا کر اسے جیل کے عقب میں لاوارثوں کے قبرستان کی طرف لے گئی.. مسلمان زور و شور کے ساتھ حکام سے میت کی حوالگی کا مطالبہ کرنے لگے.. اس پر پولیس نے پتھراﺅ کیا' لاٹھیاں برسائیں.. اس موقع پر چند سرفروش مسلمانوں نے ایک انگریز آفیسر کے دانت توڑ دئیے اور وہ شدید زخمی ہوگیا.. اس روز پندرہ فرزندان اسلام گرفتار ہوئے جن کو بعد میں قید کی سزائیں بھی ہوئیں..

جیل اہلکاروں نے اس روز ویرانے میں قبر کھود کر غازی عالم دین شہید کی تدفین بھی کر دی لیکن صوبے بھر میں مسلمانوں کے شدید احتجاج' جلسے جلوس اور مظاہروں کے بعد مسلمان اکابرین سے مذاکرات کے نتیجے میں غازی علم الدین کی میت لاہور بھجوانے کے انتظامات مکمل کر لئے گئے.. اس وقت کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی اور دیگر اہلکاران اور مسلمان اکابرین کی موجودگی میں جسد خاکی قبر سے نکالا گیا.. میت کو اکابرین اور سرکار کے افسران کی نگرانی میں میانوالی ریلوے اسٹیشن سے ایک خصوصی ٹرین کے ذریعے لاہور لے جایا گیا جہاں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئ..

ایک اندازے کے مطابق غازی علم الدین شہید کے نماز جنازہ میں چھ لاکھ سے زائد فرزندان توحید و رسالت نے شرکت کی.. جنازہ کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا.. شہید کی نماز جنازہ قاری شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی.. مولانا دیدار شاہ اور علامہ اقبال نے شہید کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا.. اس موقع پر علامہ نے فرمایا.. " یہ ترکھان کا لڑکا ہم سب پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا.. " لوگوں نے عقیدت میں اتنے پھول نچھاور کئے کہ میت ان میں چھپ گئی.. غازی علم الدین شہید کو ان کی وصیت کے مطابق میانی صاحب لاہور کے قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا.. مسلمانوں کی تاریخ میں ان کا نام ناموس رسالت پر کٹ مرنے کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا..

تبصرے

Contact Us

نام

ای میل *

پیغام *

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جماعت اسلامی کو لوگ ووٹ کیوں نہیں دیتے؟

میں کون ہوں؟