بلدیاتی انتخابات صوبہ خیبر پختونخواہ
پہلے مرحلے میں کل 66 تحصیلوں، 24 سو نیبر ھوڈ کونسلز
پر انتخابات ہوئے۔ یہ بات واضح رہے کہ تحصیلوں کی ہیت مختلف اضلاع میں مختلف ہے کہیں پر ایک تحصیل قومی اسمبلی کے حلقے کے برابرہے کچھ جگہوں پر دو صوبائی نشستوں کے برابر جبکہ اکثریتی تحصیل ایک صوبائی نشست جتنی بڑی ہے۔ کچھ جگہوں پر ان کا حجم چھوٹا ہے وہاں آدھے صوبائی اسمبلی یا اُس سے کچھ کم ہے۔
پہلے مرحلے کے تمام تحصیلوں میں جماعت اسلامی نے 66 تحصیلوں پر اُمیدوار نامزد کیے لوکل ایڈجسمنٹ کے بعد 47 تحصیلوں پر اپنے نشان ترازو کے ساتھ میدان عمل میں اُتری۔ پہلے مرحلے میں جماعت اسلامی نے تحصیل چیئرمینوں کے نشستوں پر کل 3,21,840ووٹ حاصل کیے۔تحصیل سرائے نورنگ ضلع لکی مروت اور تحصیل داربن ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے جماعت اسلامی کے دو تحصیل چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے ہی آزاد اُمیدوار تحصیل پرووا جماعت اسلامی کے حمایت سے کامیاب ہوئے ہیں۔ باجوڑ کے ایک، بونیر کے تین، پشاور اور بنوں کی ایک نشست پر ہم رنراپ رہے ہیں کرک کی ایک نشست، باڑہ کی ایک نشست اور باجوڑ کی ایک نشست میں چند پولنگ سٹیشنزپر دوبارہ رہی پولنگ ہوگی جہاں ہم دوسرے نمبر پر ہیں اس طرح مختلف اضلاع میں ہمارے چیئرمین 118، جنرل کونسلرز 248، کسان کونسلر 136، خواتین کونسلر 170، یوتھ کونسلرز 167 اور اقلیت کونسلر 18کامیاب ہوئے ہیں۔
یہ بلدیاتی الیکشن جماعت اسلامی پاکستان کے اس سیاسی حکمت عملی کی روشنی میں لڑا گیا ہے جس میں فیصلہ ہوا ہے کہ مسلسل اتحادوں اور بائیکاٹ نے ہماری انتخابی شناخت ختم کردی ہے اس لیے اپنی شناخت کی بحالی،ووٹ بینک کو مجتمع کرنے کے لیے ہم مسلسل اپنے نشان اور جھنڈے کے ساتھ ہر جگہ سے الیکشن میں حصہ لینگے۔ اس وقت بلدیاتی انتخابات میں ہم ووٹ بینک کے لحاظ سے شاید چوتھے نمبر پر ہیں جے یو آئی، تحریک انصاف، اے این پی کے بعد ہمارا نمبر ہے۔
اس الیکشن میں جنوبی اضلاع میں ہمارے قدم مضبوط ہوئے ہیں تین تحصیل کی نشستیں وہاں سے جیتی ہیں۔ کرک میں ہمیں 21ہزار ووٹ ملا ہے۔ بنوں کی ایک سیٹ ہم چند سوووٹوں سے ہارے ہیں، لکی مروت کی ایک تحصیل ہم 17ہزار ووٹ لے کر جیتے ہیں ڈیرہ اسماعیل خان سے 38ہزار ووٹ لے کر دو تحصیل کی نشستیں جیتی ہیں۔ مردان کے شہری علاقے سے ہم نے 23ہزار ووٹ لیا ہے، 2013ء کے الیکشن میں ہمارے اُمیدوار کو یہاں سے 4500ووٹ ملے تھے۔ پشاور کے میئر کی نشست پر ہم نے 19ہزار ووٹ لیا ہے اس طرح پشاور کے تحصیل متھرا سے ہمارے اُمیدوار دوسرے نمبر رہے ہیں، حالانکہ 2013میں ہم نے یہاں سے7ہزار ووٹ لیے تھے۔ 2018ء میں اس میٹرو پولٹین پشاورکے ادھے حصے سے ہم نے الیکشن نہیں لڑا نوشہرہ کی ایک تحصیل ہر ہم نے آٹھ ہزار ووٹ لیے ہیں جہاں 2013ء میں ہم نے صرف 2300ووٹ لیا تھا۔ مردان کے ایک تحصیل پر 17ہزار سے زاہد ووٹ لینے، باجوڑ کی دونوں سٹیوں پر ہم نے بھرپور اور کانٹے دار مقابلہ کیا اور اپنا ووٹ بینک قائم رکھا۔ چارسدہ میں ہم نے مجموعی 32ہزار ووٹ لیئے، خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ پر ارب پتی اُمیدوار وں کی موجودگی میں ہمارا دوسرا نمبر ہے۔ جہاں کچھ سٹیشن پر پولنگ باقی ہے اور فرق صرف تین سو ووٹوں کا ہے۔
ہمارے پیش نظر یہ تھا کہ سٹیوں کی جیتنے کی اہمیت اپنی جگہ مگر ہر ویلج کونسل اور تحصیل پر اُمیدوار کھڑا کرینگے۔ بے شک اگر کسی ویلج کونسل میں ہم ہارتے ہیں لیکن ہمارا کونسلر 400 سے 1000/800ووٹ لیتا ہے تو یہ ہمارے لیے انتہائی اہم ہے۔ اس کے ذریعے سے ہم گراس روٹ لیول پر لوکل قیادت کو متعارف کرواسکتے ہیں الیکشن کے پیچیدہ اور داو پیچ والے عمل سے اپنے کارکن کو گزار سکتے ہیں اور گراس روٹ لیول لیڈرشپ کو متعارف کرواکے اس کے ذریعے سے اپنا نشان پیغام لوگوں تک پہنچائین گے اور اس پوری ایکسرسائز کے نتیجے میں ووٹ بینک میں اضافہ /لوکل قیادت کی تیاری، اور انتخابی عمل سے گزرنے کے تجربے کو آنے والے قومی انتخابات میں استعمال کریں گے۔ یہی پالیسی جماعت اسلامی پاکستان کی تشکیل کردہ ہے۔
2018ء کے انتخابات میں ہمارے اُمیدواروں نے پورے صوبے میں 4 لاکھ ووٹ لیئے تھے۔ اس بلدیاتی الیکشن میں ہم نے پہلے مرحلے میں سوا تین لاکھ ووٹ حاصل کیا ہے۔ اُمید اس بات کی ہے دوسرے مرحلے کے 18اضلاع (جن میں ہمارے مضبوط اضلاع دیر بالا، دیر پائین، چترال، ملاکنڈ، سوات شامل ہیں) میں انتخابات ہونے جارہے ہیں اس میں ہم اگر 4لاکھ سے 5لاکھ تک ووٹ لینے میں کامیاب ہوجائیں تو مجموعی طورپر ساڑے سات، آٹھ لاکھ ووٹوں کا حصول وہ بھی اپنے نشان اپنے جھنڈے پر ایک اچھی پیش رفت ہوگی۔ اس دفعہ مجموعی ٹرن اوٹ 2013 اور 2018 کے بہ نسبت 15 سے 20 فیصد تک کم رہا ۔ اس لیے اس تناسب کو مدنظر
رکھتے ہوئے مجموعی ووٹ بنک مناسب ہے۔
اس تفصیلی پوسٹ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم سب مطمین ہیں اور سب اچھا ہے والی بات ہے۔ انتخابی سیاست اور بائیکاٹ سیاست نے ہمارا انتخابی تشتحص بری طرح مجروع کیا ہے انتخابی عمل سے باہر رہنے کی وجہ سے ہمارا ووٹ بینک بہت محدود ہوگیا ہے۔ جن جگہوں سے ہم الیکشن نہیں لڑ رہے وہاں کا کارکن غیر فعال مایوس اور الیکشن سائنس سے نا واقف ہوگیا ہے۔اس پورے عمل کی Revivalایک طویل اور صبرازما مرحلہ ہے۔ ہم نے انتہائی مستقل مزاجی، سنجیدگی اور منصوبہ بندی سے بتدریج آگے بڑھنا ہوگا۔ مایوس ہونا، عجلت میں فیصلے کرنا، الیکشن سے راہ فرار اختیار کرنا ان چیزوں کو ترک کرنا ہوگا۔ الیکشن میں حصہ جمہوری عمل کے ذریعہ زمام کار کی تبدیلی، مولانا مودودی کے فکر کا اہم جز ہے اس کے بغیر ہم اپنے طریقہ انقلاب کو پایا تکیمل تک نہیں پہنچا سکتے
دوسرا مرحلہ انتخاب انتہائی سخت ہوگا جمعیت العلما اسلام، مسلم لیگ ن اپنا پورا زور اینٹی تحریک انصاف ووٹ لینے کے لیے لگائیں گے کیونکہ ان علاقوں میں جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ ان دونوں جماعتوں کے اچھے پاکٹس موجود ہیں دوسری طرف حکمران جماعت بھی اپنا وقار بحال کرنے کے لیے بھرپور قوت کا مظاہرہ کرینگے۔ جماعت اسلامی کے مضبوط پاکٹس اپر دیر، لوئر دیر، چترال، ملاکنڈ اور سوات کے کچھ حصہ میں ہمیں شدید محنت اور لگن کے ساتھ کام کرنا ہوگا یہ الیکشن قومی الیکشن کا ریہرسل ہے۔(صہیب الدین کاکاخیل)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں