آج کا سبق



تفہیم القرآن
مفسر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

سورۃ نمبر 9 التوبة
آیت نمبر 37

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّمَا النَّسِىۡٓءُ زِيَادَةٌ فِى الۡكُفۡرِ‌ يُضَلُّ بِهِ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يُحِلُّوۡنَهٗ عَامًا وَّيُحَرِّمُوۡنَهٗ عَامًا لِّيُوَاطِـئُــوۡا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ فَيُحِلُّوۡا مَا حَرَّمَ اللّٰهُ‌ ؕ زُيِّنَ لَهُمۡ سُوۡۤءُ اَعۡمَالِهِمۡ‌ ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡـكٰفِرِيۡنَ  ۞

ترجمہ:
نَسِی تو کُفر میں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے جس سے یہ کافر لوگ گمراہی میں مبتلا کیےجاتے ہیں ۔ کسی سال ایک مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور کسی سال اُس کو حرام کر دیتے ہیں ، تاکہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری بھی کر دیں اور اللہ کا حرام کیا ہوا حلال بھی کر لیں۔37 ان کے بُرے اعمال ان کے لیے خوشنما بنادیے گئے ہیں اور اللہ منکرینِ حق کو ہدایت نہیں دیا کرتا ؏

تفسیر:
سورة التَّوْبَة 37
عرب میں نسی دو طرح کی تھی۔ اس کی ایک صورت تو یہ تھی کہ جنگ و جدل اور غارت گری اور خون کے انتقام لینے کی خاطر کسی حرام مہینے کو حلال قرار دے لیتے تھے اور اس کے بدلے میں کسی حلال مہینے کو حرام کر کے حرام مہینوں کی تعداد پوری کردیتے تھے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ قمری سال کو شمسی سال کے مطابق کرنے کے لیے اس میں کبیسہ کا ایک مہینہ بڑھا دیتے تھے، تاکہ حج ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتا رہے اور وہ ان زحمتوں سے بچ جائیں جو قمری حساب کے مطابق مختلف موسموں میں حج کے گردش کرتے رہنے سے پیش آتی ہیں۔ اس طرح ٣٣ سال تک حج اپنے اصلی وقت کے خلاف دوسری تاریخوں میں ہوتا رہتا تھا اور صرف چونتیسویں سال ایک مرتبہ اصل ذی الحجہ کی ٩ – ١٠ تاریخ کو ادا ہوتا تھا۔ یہی وہ بات ہے جو حجۃ الوداع کے موقع پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خطبہ میں فرمائی تھی کہ ان الزمان قد استدار کھیئتہ یوم خلق اللہ السمٰوٰت والارض۔ یعنی اس سال حج کا وقت گردش کرتا ہو اٹھیک اپنی اس تاریخ پر آگیا ہے جو قدرتی حساب سے اس کی اصل تاریخ ہے۔
اس آیت میں نسی کو حرام اور ممنوع قرار دے کر جہلائے عرب کی ان دونوں اغراض کو باطل کردیا گیا ہے۔ پہلی غرض تو ظاہر ہے کہ صریح طور پر ایک گناہ تھی۔ اس کے تو معنی ہی یہ تھے کہ خدا کے حرام کیے ہوئے کو حلال بھی کرلیا جائے اور پھر حیلہ بازی کر کے پابندی قانون کی ظاہری شکل بھی بنا کر رکھ دی جائے۔ رہی دوسری غرض تو سرسری نگاہ میں وہ معصوم اور مبنی بر مصلحت نظر آتی ہے، لیکن درحقیقت وہ بھی خدا کے قانون سے بدترین بغاوت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے عائد کردہ فرائض کے لیے شمسی حساب کے بجائے قمری حساب جن اہم مصالح کی بنا پر اختیار کیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے بندے زمانے کی تمام گردشوں میں، ہر قسم کے حالات اور کیفیات میں اس کے احکام کی اطاعت کے خوگر ہوں۔ مثلاً رمضان ہے، تو وہ کبھی گرمی میں اور کبھی برسات میں اور کبھی سردیوں میں آتا ہے، اور اہل ایمان ان سب بدلتے ہوئے حالات میں روزے رکھ کر فرمانبرداری کا ثبوت بھی دیتے ہیں اور بہترین اخلاقی تربیت بھی پاتے ہیں۔ اسی طرح حج بھی قمری حساب سے مختلف موسموں میں آتا ہے اور ان سب طرح کے اچھے اور برے حالات میں خدا کی رضا کے لیے سفر کر کے بندے اپنے خدا کی آزمائش میں پورے بھی اترتے ہیں اور بندگی میں پختگی بھی حاصل کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی گروہ اپنے سفر اور اپنی تجارت اور اپنے میلوں ٹھیلوں کی سہولت کی خاطر حج کو کسی خوشگوار موسم میں ہمیشہ کے لیے قائم کر دے، تو یہ ایسا ہی ہے جیسے مسلمان کوئی کانفرنس کر کے طے کرلیں کہ آئندہ سے رمضان کا مہینہ دسمبر یا جنوری کے مطابق کردیا جائے گا۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ بندوں نے اپنے خدا سے بغاوت کی اور خود مختار بن بیٹھے۔ اسی چیز کا نام کفر ہے۔ علاوہ بریں ایک عالمگیر دین جو سب انسانوں کے لیے ہے، آخر کس شمسی مہینے کو روزے اور حج کے لیے مقرر کرے ؟ جو مہینہ بھی مقرر کیا جائے گا وہ زمین کے تمام باشندوں کے لیے یکساں سہولت کا موسم نہیں ہو سکتا۔ کہیں وہ گرمی کا زمانہ ہوگا اور کہیں سردی کا۔ کہیں وہ بارشوں کا موسم ہوگا اور کہیں خشکی کا۔ کہیں فصلیں کاٹنے کا زمانہ ہوگا اور کہیں بونے کا۔
یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ نسی کی منسوخی کا یہ اعلان سن ٩ ھجری کے حج کے موقع پر کیا گیا۔ اور اگلے سال سن ١٠ ھجری کا حج ٹھیک ان تاریخوں میں ہوا جو قمری حساب کے مطابق تھیں۔ اس کے بعد سے آج تک حج اپنی صحیح تاریخوں میں ہو رہا ہے۔

تبصرے

Contact Us

نام

ای میل *

پیغام *

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جماعت اسلامی کو لوگ ووٹ کیوں نہیں دیتے؟

میں کون ہوں؟