خواب غفلت سے بیداری
قرآن کریم کا واضح اعلان ہے :
و ما حیات الدنیا الا متاع الغرور
" دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے "
سودہ آل عمران آیت 185
اس کا مطلب کائنات نہیں بلکہ وہ دنیا ہے جو ہمارا ذہن تیار کرتا ہے ۔
سب سے پہلے ذہن ایک خیالی ہیولہ بناتا ہے جسے وہ " میں " کہتا ہے ۔ پھر اس " میں " کے اندر چیزوں کی طلب اور کشش پیدا کرتا ہے ۔ پھر ہر چیز اور ہر مسئلے کو اس "میں کے مرکز' میں بیٹھ کر دیکھتا اور سمجھتا ہے ۔
ہر شے ، ہر خیال ، ہر تصور ، ہر جذبہ اس مرکز کے " مفاد" میں تشکیل دیتا ہے۔
میرا ، میری ، مجھے وغیرہ
بے شمار میں سے چند مثالیں:
چیزیں :
میرا گھر ، میری جائیداد ،میری دولت
پھر زندہ لوگ :
میری بیوی ، میرے بچے ، میرے ۔۔۔۔
اسطرح وہ ہر چیز پر 'میں " کی
ملکیت کی مہر لگا لیتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ " خود " بھی اپنا مالک نہیں ، آخر پہ ہر چیز اسی دنیا میں چھوڑ جاتا ہے
وہ خود بھی کسی کی ملکیت ہے جس کو پوری زندگی جاننے کی کوشش نہیں کرتا۔
اگر وہ کبھی اپنے " خود " کے اندر اتر سکے تو دیکھ لے گا کہ اس کی " میں " کا کوئی وجود نہیں ، صرف ایک مفروضہ ہے جس کے اندر سے ہر لمحہ خیالات کے جال نکلتے اور اسے
' میں " کے اندر مزید جکڑتے رہتے ہیں ۔ اور اس کا اصل وجود ، اس کی" خودی " گہری نیند میں خیالات کے ریلوں میں بہہ رہی ہوتی ہے ۔
اسطرح یہ سارے خیلات ، تصورات ، جذبات ، اعمال ایک خواب کی صورت میں تسلسل سے چل رہے ہیں۔
میرا جسم ، میرا ذہن ، میرا ۔۔۔۔میری۔۔۔۔مجھے ۔۔۔۔ سب خواب ہے
بابا بلھے شاہ جیسے عارف اسی کے متعلق بتاتے ہیں:
پھلاں دا تو عطر بنا
عطراں دا دریا بہا
دریا دے وچ رج کے نہا
مچھیاں وانگوں تاریاں لا
فیر وی تیری بو نہیں مکنی
پہلے اپنی " میں " مکا
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؛
نفی ھستی ( یعنی" میں " ) اک کرشمہ ہے دل_ آگاہ کا
لا۔۔۔۔۔۔ کے دریا میں نہاں ، موتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ آلا اللہ کا
اور سرور کائنات ، ہمارے آقا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
" سب لوگ سو رہے ہیں جب مرتے ہیں تو جاگ اٹھتے ہیں"
جو کچھ بھی ہو رہا ہے سب خواب ہے تمہارا
جاگو گے خواب سے تو کچھ بھی نہیں رہے گا
(جاوید چشتی)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں