پار چناں دے دسے کُلی یار دی

The Chenab Saga





پار چناں دے
چندربھاگا سے چناب تک کا سفر

پہلا حصہ

کچھ سال پہلے کوک سٹوڈیو نے ایک گانا ریلیز کیا تھا جس کے بول کچھ یوں تھے

 ”پار چناں دے دسے کُلی یار دی
 گھڑیا گھڑیا آوے گھڑی“

یہ گیت بہت مشہور ہوا تھا جس میں سوہنی مہیوال کی کہانی بیان کی گئی تھی جو بپھرے ہوٸے چناب میں گھڑے پہ تیر کہ پار اپنے محبوب مہیوال سے ملنے جایا کرتی تھی۔

تب سے سوچ رہا تھا کہ محبت کی داستانوں کے امین، چناب کی اپنی کہانی بھی سن لینی چاہیئے کہ سرحد پار ”چندربھاگا“ کے نام سے جانا جانے والا یہ دریا بہت قدیم ہے جس کا ذکر ویدوں میں بھی ملتا ہے۔

پرانے لوگوں نے بھی دریاؤں کی تقسیم کچھ یوں کی تھی

راوی راکشاں
سندھ صادقاں
چناب عاشقاں

یوں چناب کے حصے میں محبت آٸی کہ یہ دریا محبتوں کی کئی کہانیاں بھی اپنے ساتھ بہائے کشمیر و پیر پنجال سے پنجاب دھرتی تک لاتا ہے۔ اور پنجاب دھرتی تو ہے ہی رومان کی سرزمین جہاں چناب کنارے ہیر رانجھا ، مرزا صاحباں اور سوہنی مہیوال جیسی تین بڑی رزمیہ کہانیوں نے جنم لیا ہے۔ 
اس لیئے اگر یہ کہا جائے کہ چناب کے پانیوں میں عشق بہتا ہو تو چنداں غلط نہ ہو گا۔ کیا وجہ ہے کہ یہ دریا صوفیاء اور عاشقوں کا پسندیدہ دریا رہا ہے ؟

ندی کنارے جو نغمہ سرا ملنگ ہوئے 
حباب موج میں آ کے جل ترنگ ہوئے 

ارم کے پھول ازل کا نکھار طور کی لو 
سخی چناب کی وادی میں آ کے جھنگ ہوئے ۔

کبھی جو ساز کو چھیڑا بہار مستوں نے 
تو گنگ گنگ شجر ہم زبان چنگ ہوئے

آئیں اس کی تاریخ اور اس کے سفر پر روشنی ڈالتے ہیں۔ چناب کے تین پڑاؤ ہیں بھارت، مقبوضہ جموں کشمیر اور پاکستان جن کا باری باری ذکر اس مضمون میں کیا جائے گا۔ 

بھارت کے شمال میں ریاست ہماچل پردیش واقع ہے جو اپنی دلکش وادیوں، پہاڑی دروں اور ہل اسٹیشنز کے حوالے سے مشہور ہے۔ ہمالیہ کے بلند و بالا پہاڑوں سے گھری اسی ریاست سے پھوٹتا ہے وہ دریا جسے پنجاب کی گنگا کہا جائے تو غلط نہ ہو گیا کہ پنجاب کی رومانوی لوک داستانیں اسی کے کناروں سے پھوٹی ہیں۔ پیار و محبت کے اس دریا کو ہم چناب کہتے ہیں۔ 
چناب، 'چَن' اور 'آب' سے مل کر بنا ہے، چن کا مطلب چاند اور آب کا مطلب پانی ہے۔ یہ دریا بالائی ہمالیہ میں ٹنڈی (ضلع لاہول)  کے مقام پر دریائے چندرا اور بھاگا کے ملاپ سے معرض وجود میں آتا ہے۔ انہی بالائی علاقوں میں یہ ''چندربھاگا'' کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ 
یہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جموں کے علاقے سے بہتا ہوا پاکستانی پنجاب کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے اور ضلع جھنگ میں تریموں ہیڈورکس کے مقام پر یہ دریائے جہلم سے ملتا ہے اور پھر دریائے راوی کو ملاتا ہوا اوچ شریف کے مقام پر دریائے ستلج سے مل کر پنجند بناتا ہے، جو کوٹ مٹھن سے پہلے دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔

آئیں اس دریا کے ساتھ سفر کرتے ہیں  اور اس کے کنارے آباد شہروں کا جائزہ لیتے ہیں۔
 چندرا، ہندی اور سنسکرت میں چاند دیوتا کو کہا جاتا ہے جس سے چندرماں اور چاند بھی مراد لیئے جاتے ہیں۔ یہ دریا بھارت کی شمالی ریاست ہماچل میں ''سُوریہ تل'' جھیل کے جنوب سے نکلتا ہے۔ سُوریہ تل یا سورج تل جھیل بھارت کی تیسری اور دنیا کی اکیسویں بلند جھیل ہے جو قریباً 800 میٹر لمبی ہے۔ یہ لہہ-منالی ہائی وے پر مشہور ''بارا لاچا درہ''  (Bara lacha la) کے پاس واقع ہے۔ اس جھیل کے پانی کا ماخذ بھی بارا لاچا کے گلیشیئر اور نالے ہی ہیں۔
جھیل کے جنوب سے نکل کر چندرا ایک نالے کی صورت بہتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا رخ جنوب سے مشرق کی جانب ہو جاتا ہے۔ چونکہ یہ جگہ پہاڑی علاقہ ہے اس لیئے یہاں کوئی خاص بڑ شہر آباد نہیں ہے۔ جنوب مشرق کے اپنے سفر میں یہ دریا ''چندرا تل'' نامی جھیل کے قریب سے اپنا رُخ جنوب کی طرف کر لیتا ہے۔ چندرا تل ضلع لاہول سپِتی میں واقع ہماچل پردیش کی ایک مشہور جھیل ہے جو سیاحتی مرکز کے ساتھ ساتھ آبی حیات کا مسکن بھی ہے۔ جیسے جیسے چندرا جنوب کی جانب رینگتا ہے اس کے کناروں پر آبادی بڑھتی جاتی ہے۔
''درہ کُنزم'' اور کُنزم سٹوپا کے قریب سے گزر کہ یہ دریا ''بٹل'' پہنچتا ہے جو ہماچل کے سب سے بڑے دیہاتوں میں سے ایک ہے۔ بٹل سے اس کا رُخ مغرب کی جانب ہوتا ہے اور یہ بٹل-کازا اور پھر لہہ-منالی ہائی وے  کے ساتھ ساتھ بہتا ہوا ''خانگسر'' پہنچتا ہے۔ خانگسر سے یہ شمال کی جانب بل کھاتا ہوا ٹنڈی پہنچتا ہے جہاں بھاگا اس کا منتظر ہے۔
یہ تو تھا چندربھاگا کے چندر کا سفر اب چلتے ہیں بھاگا کی جانب۔
دریائے_بھاگا، بھاگ سے نکلا ہے جسے ہندومت میں قسمت کا دیوتا کہا جاتا ہے۔ بھاگ سورج دیوتا سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ یوں چندربھاگا کو چاند اور سورج کے ملاپ سے بھی تشبیہ دی جا سکتی ہے۔
 دریائے بھاگا، سُوریہ تل جھیل کے قریب سے ایک چھوٹے سے نالے کی شکل میں نکلتا ہے اور لہہ منالی ہائی وے کے ساتھ ساتھ مغرب کی طرف بہتا ہوا پتسوئی کے مقام پر اپنا رخ جنوب کو پھیر لیتا ہے۔ اس علاقے میں یہ بلند و بالا پہاڑوں کی گھاٹیوں سے گزرتا ہے جہاں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ کچھ مندر اور پگوڈے یہاں واقع ہیں۔ جسپا اور کیلونگ کی سر سبز وادیوں سے ہوتا ہوا دریائے بھاگا ٹنڈی  کے مقام پر اپنے بچھڑے ساتھ چندرا سے بغل گیر ہو کر چندرابھاگا بن جاتا ہے۔ یوں برصغیر کا ایک  عظیم دریا تشکیل پاتا ہے۔

ٹنڈی سے چندربھاگا کا سفر مغرب کی جانب شروع ہوتا ہے جہاں یہ ''تریلوک ناتھ'' اور کشوری سے ہوتا ہوا اُدے پور پہنچتا ہے۔ 
اُدے پور ہماچل کا مشہور شہر ہے جس کا پرانا نام ''مرکل'' تھا جویہاں موجود ''مرکلا دیوی'' کے مندر کی وجہ سے رکھا گیا تھا۔ پھر چمبہ کے راجہ اُدے سنگھ کے نام پر اس شہر کا نام رکھا گیا جو آج ایک ضلعی صدر مقام ہے۔ 
ادے پور اور قریب واقع تریلوک ناتھ مندر، اس علاقے کے دو اہم زیارتی مقامات ہیں جو ہندو اور بدھ دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے لیئے متبرک ہیں۔ 
ادے پور کے بعد یہ بہت سی سنسان گھاٹیوں میں بہتا ہوا رنسانی سے شمال کی جانب موڑ کاٹتا ہے۔ ہماچل میں ضلع چمبہ  کے چھوٹے چھوٹے شہروں جیسے پورتھی، کیلار اور دھرواس سے ہو کر چندربھاگا مقبوضہ جموں و کشمیر میں داخل ہو کر چناب بن جاتا ہے۔

جموں کے سرسبز پہاڑوں میں بہتا ہوا چناب بہت سے جھرنوں کا پانی خود میں سموتا ہوا ''پدار'' (Padder) پہنچتا ہے جو ضلع کشتواڑ کی ایک تحصیل اور خوبصورت وادی ہے۔ 
اس کی اگلی منزل کیرو  (Keeru) ہے جہاں اس پر ''کیرو ہائیڈرو الیکٹرک'' پاور پراجیکٹ لگا کر کشتواڑ کے لیئے بجلی بنائی جاتی ہے۔ 
اسکے بعد یہ گلہار سے ہو کر کوار پہنچتا ہے جہاں ''پکل دُل'' پاور پراجیکٹ (Pakal Dul) اور پھر آگے
'دلہستی'' (Dul Hasti) ڈیم بنایا گیا ہے جو مقبوضہ جموں کشمیر سمیت بھارتی پنجاب، ہریانہ، اترپردیش، اتراکھنڈ اور دہلی تک کو بجلی سپلائی کرتا ہے۔ اس سے کچھ آگے چناب میں مراؤ (Marau river)دریا شامل ہوتا ہے اور اس کا سفر جنوب کی جانب شروع ہوتا ہے۔ 
جنوب کی جانب بہتے ہوئے اس کے کناروں پہ مندِروں کے ساتھ ساتھ مساجد کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے۔
یہاں کچھ آگے چناب کنارے کشتواڑ شہر آباد ہے۔ کشتواڑ ریاست کے تمام ضلعوں میں ماسوائے اضلاع لداخ و ڈوڈہ،  بلحاظ رقبہ سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس علاقے کو نیلم و زعفران کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پدار میں نیلم کی بہت بڑی کان ہے جبکہ پوچھل کی وادی میں بڑے پیمانے پر زعفران کاشت کیا جاتا ہے۔ 
معدنی لحاظ سے یہ سرزمین بہت قیمتی ہے ۔ ابرق، سیسہ، جپسم اور نیلم منظر عام پر آچکے ہیں اور دوسری پوشیدہ معدنیات کا سراغ ابھی تک نہیں لگایاگیا ہے۔ پہاڑوں کی ڈھلانوں میں چیل، پرتل، دیودارسمیت دیگر عمارتی لکڑی کے جنگلات لہلہاتے ہیں۔ ان جنگلوں میں ہر قسم کا چھوٹا بڑا شکار پایاجاتا ہے۔ 
قدیم زمانہ میں کشتواڑ کی طرف سے مغلوں اور کشمیری تاجداروں کو جو خراج دیاجاتا تھا اس میں باز اور جرہ پرندے بھی شامل ہوتے تھے۔  یہاں کی زرعی پیداوارمیں  مکئی،جو گندم اور دالیں شامل ہیں۔
آگے چل کہ ''تھاتھری'' کے مقام پر چناب کا رخ مغرب کو ہو جاتا ہے۔ یہاں آہستہ آہستہ پہاڑ چھوٹے ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ڈوڈا شہر آ پہنچتا ہے۔ یہ شہر ضلع ڈوڈا کا صدر مقام ہے۔ یہاں سے آگے کے سفر میں چناب کا پاٹ چوڑا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور چندرکوٹ کے قریب اس میں واضح تبدیلی نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہاں بنایا گیا متنازعہ بگلیہار ڈیم ہے۔
 اس ڈیم پر کام کا آغاز1999 میں ہوا جبکہ اس کا دوسرا فیز 2015 میں مکمل ہوا تھا۔ اس ڈیم کی ساخت کو لے کر پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے تحت کئی اعتراضات اٹھائے تھے جن پر ورلڈ بینک نے ایک سوئس سِول انجینیئر ''ریمنڈ لیفیٹی'' کو ثالثی بنا کر بھیجا۔ ریمنڈ نے پاکستان کے کچھ قلیل اعتراضات کو تسلیم کیا جبکہ ڈیم کی اونچائی اور گیٹ کنٹرول سپل وے کے اہم معاملے پر اپنی حمایت بھارت کے پلڑے میں ڈال دی۔
 یہ پاور پراجیکٹ ضلع رامـبن کی حدود میں پیر پنجال کی پہاڑیوں کے دامن میں بنایا گیا ہے۔ وادئ چناب کا یہ ضلع اپنی سیاحتی سرگرمیوں خصوصاً پیرا گلائڈنگ، گالف، ٹریکنگ، کیمپنگ اور ہائیکنگ کے لیئے جانا جاتا ہے۔
 یہاں سے چناب مقبوضہ جموں کے ضلع ریاسی میں داخل ہوتا ہے اور مقبوضہ علاقوں کو بھارت سے ملانے والی سب سے بڑی سڑک  سرینگر- کنیا کماری ہائی وے(جو مقبوضہ کشمیر سے تامل ناڈو تک جاتی ہے) کے ساتھ چلتا ہوا شمال کی طرف جاتا ہے جہاں اس کے کنارے میترا (Maitra) اور رام بن آباد ہیں۔ 
یہاں سے کچھ آگے یہ سرینگر کنیا کماری ہائی وے کو چھوڑتا ہے اور ایک بڑی معاون ندی کا پانی لے کرجنوب کو بل کھاتا ہوا ''دھرم کنڈ'' (Dharamkund) پہنچتا ہے جہاں اس کے کنارے جپسم و دیگر معدنیات کی کانیں موجود ہیں۔ 
چناب کا سفر پیر پنجال کی پہاڑی گھاٹیوں میں جاری ہے یہاں تک کہ دھاروٹ سے ہو کہ یہ ضلع ریاسی میں اُس جگہ آ پہنچتا ہے جہاں اس پر ایک خوبصورت محرابی شکل کا ریلوے پل بنایا گیا ہے جس کی اونچائی دریائی تل سے 359 میٹر ہے (پیرس کے ایفل ٹاور سے بھی زیادہ)۔  اسے دنیا کا سب سے اونچا ریلوے کا پُل کہا جاتا ہے جو ادھم پور کو بارہ مولہ اور سرینگر سے ملاتا ہے۔ 
یہاں میں یہ بات بھی کہنا چاہوں گا کہ بھارت نے اپنے ریلوے نیٹ ورک کو اتنی ترقی و وسعت دی ہے کہ اسے جموں تک لے آیا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں یہ حال ہے کہ نئے ٹریکس بنانا تو کجا ہمارے کئی ٹریکس بند ہو کر بے کار پڑے ہیں۔ کاش کہ ہمارے ہاں بھی سیاحتی مقامات جیسے سوات، مری، مظفرآباد وسکردو کو ریلوے لائن سے ملا دیا جائے۔
جاری ہے۔۔۔۔

بشکریہ 
تحریر و تصاویر 
محمد عظیم شاہ بخاری

The Chenab Saga

پار چناں دے

چندربھاگا سے چناب تک کا سفر

دوسرا حصہ

یہاں سے آگے چناب کا پاٹ پھر چوڑا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس میں کہیں کہیں چھوٹے جزائر نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔  شمال اور مغرب سے اس میں معاون ندیاں آ ملتی ہیں اور کچھ جنوب میں یہاں اس پر  ''سلال ڈیم'' بنایا گیا ہے۔
یہ run of river  ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ہے جو 1970 سے 1987 تک کے عرصے میں بن کہ تیار ہوا یوں یہ سندھ طاس معاہدے کے بعد مقبوضہ جموں کشمیر میں بنایا جانے والا پہلا بھارتی منصوبہ تھا۔
ڈیم سے آگے دریا کا پاٹ سکڑنا شروع ہوتا ہے اور سلال شہر آ جاتا ہے۔ سلال سے یہ تلواڑا پہنچتا ہے جہاں سے اس کا پاٹ پھر چوڑا ہوتا ہے ۔ یہاں چناب کنارے رافٹنگ پوائنٹس بنائے گئے ہیں۔
کچھ آگے مشرق سے ایک اور شاخ اس میں ملتی ہے اور اس کے پانی کو جلا بخشتی ہے۔ یہاں یہ مختلف شاخوں میں بٹ جاتا ہے جن میں مغرب اور پھر مشرق سے کشمیر کا پانی لے کہ دی نالے شامل ہوتے ہیں۔
اب ہم چناب کے تنگ پاٹ کے ساتھ جموں میں داخل ہونے کو ہیں جو مقبوضہ ریاست میں اس دریا کا آخری پڑاؤ ہے۔ یہاں اس کی اہم منزل اکھنور ہے۔
اکھنور جموں کا ایک مشہور اور قدیم شہر ہے جس کا ذکر مہا بھارت میں ''ویراٹ نگر'' کے نام سے آیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب شہنشاہ جہانگیر کی کشمیر یاترا کے دوران آنکھیں خراب ہوئیں تو ایک بزرگ کے مشورے پر اس نے اس جگہ کا دورہ کیا۔ چناب سے آنے والی ہواؤں نے اس کی آنکھوں کو تراوٹ بخشی اور وہ ٹھیک ہو گٸیں جس پر شہنشاہ نے اس جگہ کو آنکھوں کا نور قرار دیا جو بگڑتے بگڑتے اکھنور بن گیا۔
ایک دوسری جگہ یہی روایت اس کی بیوی سے منسوب ہے کہ آنکھیں خراب ہونے پر اس نے چناب کے پانی سے آنکھیں دھوئیں تو آنکھوں کا نور واپس آ گیا اور یوں اکھنور شہر کا نام پڑ گیا۔ ان میں سے سچ کیا ہے کوئی نہیں جانتا۔
 اکھنور ایک تاریخی شہر بھی ہے۔ "آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا" کے مطابق یہ شمال میں وادئ_سندھ کی تہذیب کے آخری قلعوں میں سے ایک تھا۔
اکھنور ہی وہ جگہ ہے جہاں پہاڑ اور ان کی وادیاں چناب کو میدانی علاقوں کے سپرد کر دیتی ہیں اور اس کی روانی کچھ کم ہو جاتی ہے۔
اب چناب کا سفر بجانب جنوب مغرب ہے اور یہ دیوی پور، گکھڑال، پرگوال اور سروال سے ہوتا ہوا مختلف شاخوں میں بٹ کر ٹگوال آ پہنچتا ہے۔ یہ مقبوضہ جموں کشمیر و پاکستان کی سرحد پر آخری علاقہ ہے۔ 
یہاں سے چناب پاک سر زمین میں داخل ہو جاتا ہے اور ایک نیا سفر شروع ہوتا ہے۔
ضلع سیالکوٹ پاکستانی حدود میں چندربھاگا کو خوش آمدید کہتا ہے۔ یہاں گنگوال نامی قصبہ سے گزر کہ پہلے اس میں تیروتی نالہ اور پھر مشرقی سمت سے دریائے_تَوی آ ملتا ہے۔
 کیلاش گلیشیئر سے نکلنے والا دریائے توی جموں شہر سے بہہ کر سیالکوٹ کی حدود میں داخل ہوتا ہے اور چناب میں مل جاتا ہے۔ عام طور پر بھارت میں دیگر دریاؤں کی طرح  141 کلومیٹر لمبا دریائے توی بھی مقدس دریا سمجھا جاتا ہے۔
یہاں سے کچھ ہی جنوب میں ضلع سیالکوٹ و گجرات کی سرحد پہ چناب پر پاکستان کا پہلا بند باندھا گیا ہے۔ یہ مرالہ ہیڈورکس ہے۔ 
برطانوی دور میں نہر اپرچناب کو پانی کی سپلائی کے لیئے یہاں ایک بند تعمیر کیا گیا تھا۔ پھر آبپاشی اور سیلاب سے بچاؤ کے لیئے یہ نیا بیراج 1968 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ 
پاکستان کی دو اہم ترین نہریں، مرالہ راوی لنک کینال اور اپر چناب کینال یہاں سے نکلتی ہیں۔ اپر چناب گوجرانوالہ اور شیخوپورہ کے اضلاع کو سیراب کرتی ہوئی مانگا کے قریب راوی میں مل جاتی ہے۔ 
مرالہ راوی لنک کینال 1956 میں چناب کا پانی راوی کو منتقل کرنے اور ضلع سیالکوٹ و گوجرانوالہ کی اراضی کو سیراب کرنے کے لیئے بنائی گئی تھی۔ 65 کی جنگ میں اسی نہر کو نشانہ بنا کہ بھارتی فوج نے حملہ کیا اور پاک فوج کے ہاتھوں پسپائی اختیار کی۔ 
 ہیڈ مرالہ سے آگے چناب کا پاٹ چوڑا ہو جاتا ہے۔ یہیں جلالپور جٹاں کے قریب کشمیر سے آتا ہوا ''دوارا نالہ'' (Doara Nullah) مغربی جانب سے چناب میں گرتا ہے۔ یہاں سے چناب، گجرات و گوجرانوالہ کے اضلاع کے بیچ حد بندی بناتا ہوا بہتا چلا جاتا ہے۔
یہ علاقہ پنجاب کے زرخیز ترین علاقوں میں سے ہے جہاں کا باسمتی چاول اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں چناب کنارے آباد پاکستان کا پہلا بڑا شہر گجرات ہے۔
برقی آلات، بجلی کے پنکھے و فرنیچر سازی کے لیئے مشہور گجرات کو ''نشانِ حیدر'' کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے۔ اس ضلع کے تین فوجی جوان نشان حیدر حاصل کر چکے ہیں جن میں راجہ عزیز بھٹی شہید، میجر شبیر شریف شہید اور میجر محمد اکرم شہید شامل ہیں۔  
تاریخی اہمیت کی بات کریں تو مغلیہ دور میں، مغل بادشاہوں کا کشمیر جانے کا راستہ گجرات ہی تھا۔ جب کشمیر سے واپسی پر مغل شہنشاہ جہانگیر کا انتقال ہوا تو اس کے اعضاء خراب ہونے سے بچانے کے لیئے پیٹ کی انتڑیاں نکال کر گجرات میں ہی دفنا دی گئیں، جہاں اب ہر سال شاہ جہانگیر کے نام سے ایک میلہ لگتا ہے۔ 
انگریزوں اور سکھوں کے درمیان دو بڑی لڑائیاں اسی ضلع میں لڑیں گئیں، جن میں چیلیانوالہ اور گجرات کی لڑائی شامل ہیں۔ اور گجرات کی لڑائی جیتنے کے فورا بعد انگریزوں نے 22فروری 1849 کو پنجاب کی جیت کا اعلان کر دیا تھا۔
گجرات ہی کے قریب پہلے الیگزینڈر برج پر سے لاہور پشاور مرکزی ریلوے لائن اور پھر  گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ) چناب پر سے گزرتی ہے۔ گجرات، پنجاب كا ايک ایسا ضلع ہے جہاں كے بہت سے لوگ بیرونِ مُلک كام كرتے ہيں اور وطنِ عزیز کو قیمتی زرِمبادلہ کما کر بھیجتے ہیں۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر برطانیہ، یونان اور ناروے میں آباد ہیں۔ 
گجرات ہی وہ جگہ ہے جہاں چناب کنارے سوہنی مہیوال کی عشقیہ داستان نے جنم لیا۔
سوہنی، گجرات میں ایک کمھار کے گھر پیدا ہوئی تھی جس کا حسن دور دور تک مشہور تھا۔سوہنی کے والد کی دکان رام پیاری محل کے قریب دریا کے کنارے پر واقع تھی۔ مہینوال کا اصل نام عزت بیگ تھا، اس کا تعلق بخارا سے بتایا جاتا ہے۔ عزت بیگ تجارت کی غرض سے گجرات آیا اور کاروبار کی غرض سے  وہیں مقیم ہو گیا۔
 ایک روز عزت بیگ برتن خریدنے عبد اللہ کمہار کے گھر پہنچا تو اُس کی نظریں سوہنی سے چار ہوئیں، دونوں پر سکتہ طاری ہو گیا اور دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔
عزت بیگ نے سوہنی کے قریب رہنے کے لیئے اس کے باپ کے ہاں ملازمت کرلی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ سوہنی اور مہنیوال کے عشق و محبت کی داستان نہ صرف سوہنی کے باپ بلکہ دور دراز کے علاقوں تک جا پہنچی۔ بد نامی کے خوف سے کمھار نے سوہنی کا رشتہ اپنے ہی خاندان کے ایک نوجوان سے طے کر دیا اور تھوڑے ہی دنوں میں اس کی شادی کردی۔ 
سوہنی رخصت ہوکر اپنے شوہر کے ساتھ دریائے چناب کے دوسرے کنارے پر واقع اپنے شوہرکے گھر چلی گئی جب کہ مہینوال اسی کنارے پر رہ گیا۔ اب ان کے بیچ چناب حائل تھا۔ سوہنی نے اپنی محبت کی تسکین اور محبوب سے ملاقات کے لیے ایک منفرد طریقہ ایجاد کیا۔ چونکہ وہ مٹی کے ظروف بنانے میں مہارت رکھتی تھی اس لیے اس نے دریا کے دوسرے کنارے تک پہنچنے کے لیے پکی مٹی سے ایک گھڑا تیار کیا اور روزانہ رات کی تاریکی میں اپنے محبوب مہنیوال سے ملنے دریا کے پار پہنچ جاتی۔ 
یہ بات جب اس کی نند  جو خود بھی کمہارن تھی،  کو پتہ چلی تو اس نے ایک دن پکی مٹی کے گھڑے کی جگہ ایک کچی مٹی سے بنا گھڑا رکھ دیا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ سوہنی تیرنا نہیں جانتی۔ اس بات سے بے خبر سوہنی وہی کچی مٹی کا گھڑا اٹھا کر اس کی مدد سے دریا میں اتر جاتی ہے۔ پانی میں اترنے کے بعد کچی مٹی سےبنے گھڑے کی مٹی گھلنے لگتی ہے اور دریا کے عین وسط میں پہنچ کرگھڑا بالکل پگھل جاتا ہے اس کے ساتھ ہی سوہنی بھی ڈوبنے لگتی ہے۔
موت کے خوف سے سوہنی بے اختیار مہیوال کو پکارتی ہے۔ مہیوال جو دریا کے دوسرے کنارے پر سوہنی کے آنے کا انتظار کررہا ہوتا ہے، اس کی چیخیں سن کر دریا میں چھلانگ لگا دیتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اسے بھی تیرنا نہیں آتا ، اس لیے سوہنی کے ساتھ وہ بھی ڈوب جاتا ہے۔ دونوں کی محبت چناب میں امر ہو جاتی ہے۔

کچے گھڑے کو ہاتھ میں تھامے ہوئے تھا عشق
 بپھری ہوئی تھیں سامنے لہریں چناب کی

یہ قصہ اتنا مشہور ہوا کہ فضل شاہ نے اس پر طویل نظم لکھی، سوبھا سنگھ نے اسے صفحہ قرطاس پر اتارا، پٹھانے خان اور عالم لوہار نے اسے گایا اور پھر کوک اسٹوڈیو میں نوری بینڈ کا گانا دوبارہ اسی قصے سے متاثر ہو کر بنایا گیا۔ بالی وڈ میں اس قصہ پر کٸی فلمیں بھی بن چکی ہیں۔

چناب پار گجرات کے دوسری طرف وزیرآباد ہے جو کٹلری (چھری کانٹے) کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ 
اس شہر کی بنیاد مغل بادشاہ، شاہ جہاں کے ایک گورنر وزیرخان نے رکھی تھی جن کے نام پہ یہ وزیر آباد کہلایا۔ صنعتی لحاظ سے یہ پنجاب کی ''سنہری تکون'' کا حصہ ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ دنیا بھر میں کٹلری اور سرجیکل آلات بنانے میں مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ قریبی دیہات چاول، گندم، سبزیوں اور گنے کی پیداوار میں بھی مشہور ہیں۔ بون کرشنگ فیکٹریوں کے علاوہ ڈومیسٹک پریشر کُکر کے لحاظ سے بھی یہ علاقہ نمایاں ہے۔ یہ شہر ایک اہم جنکشن ہے جو سیالکوٹ اور فیصل آباد کو جانے والی ٹرینوں کو راستہ فراہم کرتا ہے۔ 
کچھ جنوب میں شادیوال کے قریب ''بھمبر نالے''  (Bhimber Nullah)میں ضم ہو کہ نہر ''اپر جہلم'' چناب میں آ ملتی ہے جس کے ساتھ ہی خانکی ہیڈورکس واقع ہے۔ 

جاری ہے

بشکریہ 
تحریرو تحقیق 
محمد عظیم شاہ بخاری

The Chenab Saga

پار چناں دے

چندربھاگا سے چناب تک کا سفر

تیسرا حصہ

خانکی  1889 میں بنایا جانے والا پاکستان کا سب سے پرانا بیراج ہے جو ضلع گوجرانوالہ کی حدود میں واقع ہے۔ 1920 اور پھر 33 میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے باعث اس بیراج کو دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا جو 2017 میں مکمل بن کہ تیار  ہوا۔
جھنگ، چنیوٹ، حافظ آباد، فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع کی ہزاروں ایکڑ اراضی کو پانی پہنچانے والی نہر لوئر چناب اسی ہیڈ ورکس سے نکلتی ہے جس کی ذیلی شاخوں میں جھنگ برانچ، رکھ برانچ اور گوگیرہ کینال شامل ہیں۔ 
رکھ برانچ نہر 1892 میں انگریزوں نے ساندل بار کو سیراب کرنے کے لیئے نکالی تھی جو حافظ آباد، سکھیکی، سانگلہ ہل، سالاروالا اورچک جھمرہ کے دیہات کو سیراب کرنے کے بعد فیصل آباد میں داخل ہوتی ہے۔ 
جیسے ہی چناب جنوب میں اپنا سفر شروع کرتا ہے اسکی مغربی جانب ضلع منڈی بہاؤ الدین شروع ہو جاتا ہے جو ایک زمانے میں ضلع گجرات کا حصہ تھا۔ اپنے بہترین چاول کے لیئے مشہور یہ ضلع گوندل بار بھی کہلاتا ہے۔ 
اس ضلع میں داخل ہوتے ہی چناب کنارے پہلا قصبہ جوکالیاں کا ہے جو مشہور ادیب و ڈرامہ نگار ''مستنصر حسین تارڑ'' کا آبائی علاقہ بھی ہے۔ جوکالیاں کے نام سے ہی انہوں نے ایک کتاب بھی لکھ رکھی ہے۔  
جوکالیاں سے آگے کچھ جنوب میں گوجرانوالہ کی طرف ''رسول نگر'' واقع ہے جو ایک تاریخی و قدیم قصبہ ہے۔ 
رسول نگر جس کا سابقہ نام رام نگر تھا، بھی اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتا ہے- تاریخی حوالے سے اس کا نام پہلے بھی رسول نگر تھا، رنجیت سنگھ کے والد مہا سنگھ نے جب اس پر حملہ کیا تو اسی دوران اسے رنجیت سنگھ کی پیدائش کی اطلاع ملی، اس قصبہ کو فتح کرنے کے بعد اس نے اس کا نام رام نگر رکھ دیا۔ 
رنجیت سنگھ نے دریائے چناب کے کنارے شہر رسول نگر سے 2 کلومیٹر مشرق کی جانب اپنے دور کی خوبصورت ترین بارہ دری تعمیر کی اور دریا میں اترنے کے لیے زیر زمین سرنگ بھی تعمیر کی جس میں اس کے اہل خانہ نہانے کے لیے اترتے تھے۔
مہا راجا رنجیت سنگھ ہر سال کچھ عرصہ یہاں قیام کرتا تھا۔ 
اسی مقام پر خالصہ فوج اور برطانوی فو ج کے درمیان لڑاٸی میں برطانوی فوج کے کئی آفیسر ہلاک ہوئے جن کی قبریں علاقہ بھر میں کھڑی قبروں کے نام سے مشہور ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں سکھوں کی مڑیاں اور ایک تاریخی جین مندر بھی موجود ہے جسے رنجیت سنگھ کے دور میں ایک جین سادھو ''بُدھ وجے'' نے بنوایا تھا- 

یہاں سے چناب ضلع حافظ آباد و منڈی بہاؤ الدین کی سرحد بناتا ہوا رواں دواں ہے  جہاں اس کےغربی کنارے سے ''رسول - قادرآباد لِنک کینال'' چناب میں ملتی ہے۔ دریاٸے جہلم پر واقع رسول بیراج سے نکلنے والی اس نہر کی پانی چھوڑنے کی صلاحیت پاکستان میں چشمہ جہلم لنک کینال کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ پانی سے بھری یہ نہر کسی چھوٹے ملک کے بڑے دریا جیسا منظر پیش کرتی ہے۔
یہاں دوسری طرف حافظ آباد کا قصبہ ''قادر آباد'' واقع ہے (اسی نام کا ایک علاقہ پھالیہ میں بھی ہے) جہاں1967 میں قادرآباد بیراج بنا کہ ''قاد آباد - بلوکی'' لنک کینال نکالی گئی تھی ۔ یہ نہر رسوال بیراج سے موصول شدہ پانی چناب سے لے کہ حافظ آباد ، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب کے اضلاع سے ہوتی ہوئی بلوکی کہ مقام پر راوی میں ڈالتی ہے۔ 
 یہاں حافظ آباد کی حدود میں چناب کنارے کوٹ عالم، کوٹ دائم و گڑھی کلاں کے قصبے واقع ہیں۔
اب چناب کی مغربی سمت ضلع سرگودھا شروع ہو چکا ہے جو اپنی زرخیزی اور بہترین مالٹے و کینو کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہیں چناب کنارے سرگودھا کا مشہور قصبہ تخت ہزارہ واقع ہے۔ کسی دور میں ''کھجیانوالہ'' کہلایا جانے والا یہ شہر مشہور رومانوی داستان ''ہیر رانجھا'' کے کردار رانجھا سے منسوب کیا جاتا ہے۔ تاریخ کے مطابق یہ ایک بڑا شہر ہوا کرتا تھا جو سکھوں کے حملوں کے باعث ایک قصبہ بن کہ رہ گیا۔
تخت ہزارہ رانجھے سے وابستگی کی وجہ سے مشہور ہوا جس کی کہانی پنجابی صوفی شاعر وارث شاہ نے ہمیشہ کے لیے ''ہیر وارث شاہ'' میں امر کر دی ہے۔ مقامی مصنف میاں محمد شفیع نے اپنی کتاب صدف ریزے میں تخت ہزارہ کے ثقافتی ورثے کا ذکر کیا ہے جس میں میاں رانجھا کے نام سے ایک پرانی مسجد بھی شامل ہے جس کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔ 
مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے بھی اپنی کتاب ''تزک بابری'' میں تخت ہزارہ  ہے۔میں لکھا ہے ۔اس سے آگے مڈھ رانجھا کا قصبہ ہے جس کے قریب لاہور سے اسلام آباد جانے والی موٹروے ایم 2 چناب پر سے گزرتی ہے۔
یہیں برگد کا وہ قدیم درخت بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کادوسرا بڑا اور قدیم درخت ہے جس کا پھیلاؤ قریباً چار ایکڑ سے کم ہو کر تین ایکڑ تک محدود ہو گیا ہے۔ دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔
چناب اب حافظ آباد کو چھوڑ کہ ضلع چنیوٹ میں داخل ہو چکا ہے جو پہلے ضلع جھنگ کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ یہاں اس کے ارد گرد معدنیات سے بھرپور کِرانہ کی پہاڑیاں واقع ہیں۔ اپنے تاریخی ورثے، خوبصورت لکڑی کے کام، عمر حیات محل،  تاریخی شاہی مسجد اور مختلف دھاتوں کے ذخائرکی بدولت مشہور چنیوٹ، پاکستان کا اٹھائیسواں بڑا شہر ہے۔ 
 چنیوٹ میں موجود پہاڑ شہر کی تاریخ کا ایک اہم باب ہیں جن سے ملنے والے نوادرات اور نقوش یہاں پر آباد قدیم تہذیبوں کا پتا دیتے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ پہاڑیاں تاریخی اہمیت کی حامل ہیں جو اپنے اندر بہت سے تاریخی راز اور نوادرات سموئے ہوئے ہیں۔ ان قدیم پہاڑوں پر موجود نشانات سے ماہرین آثار قدیمہ ابھی تک یہ اندازہ نہیں لگا پائے ہیں کہ یہ ہڑپہ تہذیب کی تحریر ہے یا پھر محض چٹانی نقوش اور اگر یہ کوئی خاص تحریر ہے تو کس اور کتنی پرانی تہذیب کی؟۔
 چناب، ضلع چنیوٹ کے وسط میں بہتا ہے جہاں اس کے ایک طرف چنیوٹ تو دوسری جانب چناب نگر واقع ہے۔ دونوں شہروں کو چناب کا خوبصورت پل ملاتا ہے جس پر فیصل آباد سے سرگودھا جانے والی لائن اور روڈ بھی گزرتی ہے۔
چناب نگر کا پرانا نام ''ربوہ'' ہے جو پاکستان میں قادیانیوں کا مرکز ہے۔  لفظ ربوہ عربی زبان سے لیا گیا ہے جس کے معانی اونچی جگہ کے ہیں۔ قریبا 50,000 آبادی والے شہر کی آبادی کا 95 فی صد حصہ اقلیتی جماعت احمديہ کے پیروکاروں سے تعلق رکھتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ربوہ وہ جگہ ہے جہاں محمد بن قاسم نے سندھ اور ملتان فتح کرنے کے بعد دریائے چناب کو عبور کر کے ''چندروٹ'' کے راجا کے خلاف جنگ کی تھی۔ چندروٹ موجودہ چنیوٹ کا قدیمی نام ہے۔ 
موجودہ شہر ربوہ کی آبادی سے پہلے یہ جگہ ''چک ڈھگیاں'' کہلاتی تھی اور اسے آباد کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہو چکی تھیں۔ 1948ء میں جماعت احمديہ کے مرکز کی قادیان، ہندوستان سے نقل مکانی کے بعد اس جگہ 1034 ایکڑ اراضی حکومت پاکستان سے بارہ ہزار روپے کے عوض مستعار لی گئی اور شہر کا نام ربوہ رکھا گیا۔ 14 فروری 1999 کو اس کا نام بدل کہ چناب نگر رکھ دیا گیا۔ یہاں منعقد ہونے والا سالانہ ختم نبوت جلسہ پاکستان کے بڑے اجتماعات میں سے ایک ہے۔ 
کچھ جنوب مغرب میں چلیں تو چنیوٹ کی تحصیل بھوانہ واقع ہے۔ یہ بھی ایک قدیم علاقہ ہے جسکا ذکر اس کے خوبصورت طرزِ تعمیر اور جھروکوں کی وجہ سے تزکِ بابری میں ملتا ہے۔ 
بھوانہ سے آگے چناب ہیر سیال کے ضلع جھنگ میں داخل ہو چکا ہے جہاں مشہور قصبہ کھیوا اس کی مشرقی جانب واقع ہے۔ یہ صاحباں کا گاؤں ہے جو 
چناب کنارے ہماری دوسری کلاسیکی رومانوی داستان کا مرکزی کردار ہے۔ 
مرزا اور صاحباں رشتہ دار تھے اور بچپن سے اکھٹے پڑھتے رہے تھے، نہ جانے کب ایک دوسرے کے پیار میں کھو گئے۔تاریخ دان اس واقعہ پر متفق ہیں کہ ایک بار معلم نے مرزا کو چھڑی سے مارا تو صاحباں نے اپنی ہتھیلی بند کر لی اور جب اس نے ہتھیلی کھولی تو اس پر چھڑی کے نشان تھے۔ یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور مرزا کو واپس اس کی ماں کے پاس بھیج دیا گیا لیکن تب تک عشق دلوں میں گھر کر چُکا تھا۔ 
پڑھائی کے ساتھ ساتھ مرزا ایک بہترین تیر انداز اور گھڑ سوار بن چکا تھا۔ مرزا کے جانے کے بعد صاحباں کے باپ کھیواخان نے اس کا رشتہ کر دیا۔ شادی کی تیاریاں شروع ہوئیں تو صاحباں نے مرزا کو پیغام بھجوایا اور مرزا شادی والے گھر سے صاحباں کو اٹھا لے گیا۔ 
راستے میں سفر کی تھکان سے مغلوب مرزا، ایک گھنے درخت تلے سو گیا ادھر صاحباں نے مرزا کے تیر توڑ دیے کیونکہ وہ جانتی تھی کہ مرزا ایک قابل تیر انداز ہے اور وہ یہ ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ مرزا کے نشانے پر اس کے بھائی ہوں۔ صاحباں کا خیال تھا کہ وہ اپنے بھائیوں کو منا لے گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔
ان دونوں کا پیچھا کرتے کرتے صاحباں کے بھائی وہاں تک پہنچ گئے اور مرزا کو مار دیا۔ جبکہ صاحباں کے بارے میں کچھ کہتے ہیں کہ وہ مرزا کو بچاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئی اور کچھ کے مطابق اس کے بھائی اسے محل واپس لے گئے اور وہاں پر اسے مار دیا گیا۔ 
مرزا صاحباں کی قبریں فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے گاؤں دانا آباد میں موجود ہیں۔ ان کے ساتھ ہی مرزا کے والد سردار ونجھل جٹ کی قبر بھی ہے۔ اس مقبرے کے باہر بکی کی قبر ہے جو مرزا کی چہیتی گھوڑی تھی اور مرزا کے کچھ دن بعد ہی مر گئی تھی۔ 
مرزا صاحباں کی کہانی پر بھی پاکستان و ہندوستان میں کئی فلمیں بن چکی ہیں جبکہ نظم کی شکل دے کر اس لازوال داستان کو شاعر پیلو  نے شہرت بخشی ہے جو نور پور تھل کے موضع  پیلووینس میں مدفون ہیں۔ 
 یہاں سے آگے خانیوال سے سرگودھا جانے والی مرکزی ریلوے لائن اسے کراس کرتی ہے اور پھر اس کے کنارے محبت کا شہر جھنگ آ جاتا ہے۔ 
جھنگ ساندل بار کا مشہور شہر ہے جو اپنے لوک میلوں، تہواروں، عرسوں، لوک فنکاروں، پہناوں اور انگریزوں کے خلاف اپنی بغاوت کے لیئے جانا جاتا ہے۔  
جھنگ شہر سردار_راٸےسیال نے 1288ء میں اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ جلال بخاری کے کہنے پر آباد کیا۔ سیال قبائل نے جھنگ پر 360 سال حکومت کی ۔آخری سیال حکمران احمد خان تھے، جنھوں نے 1812ء سے 1822ء تک حکومت کی۔ اُن کے بعد حکومت سکھوں کے ہاتھ آئی اور پھر ان سے انگریزوں کے قبضہ میں گئی جنہوں نے اس علاقے سے کھڑے ہونے والے جنگ آزادی کے ہیرو رائے احمد خان کھرل کی وجہ سے اسے ہمیشہ پسماندہ ہی رکھا۔
جاری ہے۔

بشکریہ 
عظیم شاہ بخاری

The Chenab Saga

پار چناں دے

چندربھاگا سے چناب تک کا سفر

آخری حصہ

جھنگ کے ساتھ چناب پہ ”ریواز پل“ واقع ہے جو ملک پاکستان کے سب سے پرانے پلوں میں سے ایک ہے۔ یہ 1905 میں انگریزوں نےبنایا تھا جسے قریب موجود گاٶں کی وجہ سے چنڈ بھروانہ پل بھی کہا جاتا ہے۔

جھنگ کا ایک اور حوالہ محبت بھی ہے۔ چناب کنارے محبت کی اس سر زمین سے  ہیر سیال جیسی مٹیارن نے جنم لیا  جس کے عشق کی داستان، چناب کہانیوں میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔
بہت سے مصنفین و شعرا نے ہیر رانجھا کی کہانی لکھی، لیکن ان میں سے سب سے مشہور وارث شاہ کی لکھی ہوئی ہیر وارث_شاہ ہے۔ مختصر کہانی یوں ہے کہ تخت ہزارے کا میاں مراد بخش عرف رانجھا باپ کے مرنے کے بعد بھائیوں سے تنگ آ کہ گھر چھوڑ دیتا ہے اور پھرتے پھرتے ہیر سیال کے جھنگ آ پہنچتا ہے۔ یہاں جب وہ ہیر کو دیکھتا ہے تو اپنا دل دے بیٹھتا ہے۔ 
ہیر بھی رانجھے کی ونجلی (بانسری) کے سحر میں اس کی شیدائی ہو جاتی ہے اور یہ دونوں چھپ کہ ملنے لگتے ہیں یہاں تک کہ ہیر کا چاچا کیدو اسے پکڑ لیتا ہے اور اس کی شادی کھیڑوں میں کر دی جاتی ہے۔
ماہی ماہی کوکدی میں آپے رانجھن ہوئی
رانجھن رانجھن ہر کوئی آکھے ہیر نہ آکھے کوئی 
(شاہ حسین)
ادھر عشق میں نا کامی سے رانجھے کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور وہ دوبارہ آوارہ گردی کرنے لگا۔ ایک دن اس کی ملاقات بابا گورکھ ناتھ سے ہوئی جو جوگیوں کے ایک قبیلے کا بانی تھا۔ اس کے بعد رانجھا بھی جوگی بن گیا۔ اس نے ٹلہ جوگیاں پر اپنے کان چھدوائے اور جوگی بن کر رنگ پور پہنچا جہاں ہیر بیاہی گئی تھی۔ یہاں اس نے سیدو کھیڑے کے مکان پر صدا لگائی جسے پہچان کہ ہیر اپنی نند سہتی کے ساتھ اس سادھو کو خیرات دینے باہر نکلی۔ ہیر نے رانجھا کو پہچان لیا۔ رانجھا نے رنگ پور میں ڈیرہ لگا لیا اور خیرات کے بہانے ہیر کا دیدار کرتا رہا۔
یہاں سے آگے اس داستان پر بہت سے لوگوں کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ کسی کے مطابق بیٹی کی ضد سے مجبور ہیر کے والدین دونوں کی شادی پر رضا مند ہو گئے مگر حاسد کیدو نے عین شادی کے دن زہریلے لڈو کھلا کر ہیر کا کام تمام کر دیا جبکہ  کوئی کہتا ہے کہ ہیر کو زہریلے سانپ کے ڈسنے پر علاج کی غرض سے رانجھے جوگی کے ساتھ بھیجا جاتا ہے جہاں سے وہ فرار ہو جاتے ہیں اور کھیڑے انہیں قتل کر دیتے ہیں۔ کہیں لکھا ہے کہ جھنگ کہ قریب پہنچنے پر سیال انہیں قتل کر دیتے ہیں۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ ہیر رانجھا دونوں کو ہی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔

بے ادباں نہ سار ادب دی نال غیراں دے سانجھے ہُو
جیہڑے ہانہہ مِٹی دے بھانڈے کدی نہ ہوندے کَانجھے ہُو
جیہڑے مُڈھ قدیم دے کھیڑے ہوون کدی نہ رانجھے ہُو
جَیں حضور نہ منگیا باہُو گئے جہانیں وَانجھے ہُو

(حضرت سلطان باہو رح )

ہیر رانجھا کی کہانی پر مبنی بھارت اور پاکستان میں متعدد بار “ہیر رانجھا“ نام کی فلمیں بن چکی ہیں جن میں فردوس اور اعجاز درانی کی پنجابی فلم ہیر رانجھا نے بہت نام کمایا۔
پنجاب میں تین صدیوں تک اس کو شادی بیاہ، میلوں اور دیگر مواقع پر گایا اور سنا جاتا رہا ہے۔ آج بھی پنجاب کے دیہاتوں میں بزرگ شخصیات اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ 
جنڈیالہ شیرخان میں وارث شاہ کے مزار پہ آج بھی ہیر پڑھی جا رہی ہوتی ہے۔
یہ تو ایک کہانی ہے جسے اکثر لوگ حقیقت نہیں مانتے اور تاریخی طور پہ بھی اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ دوسرا حضرت بابا بلھے شاہ، حضرت سچل سرمست، حافظ برخوردار اور دیگر صوفی شعرا نے ہیر رانجھا کا جو تصور پیش کیا وہ عاشقی کا تاثر نہیں دیتا بلکہ دونوں کے روحانی مرتبہ و مقام کی نشان دہی کرتا ہے۔
ہیر کا مزار بھی جھنگ میں واقع ہے جبکہ چناب کے نام پر جھنگ کا مشہور تعلیمی ادارہ چناب کالج 1991 میں بنایا گیا تھا ۔
واپس چناب کی طرف آتے ہیں۔
جھنگ سے ہی کچھ جنوب میں تریموں کے مقام پر کشمیر و پوٹھوہار کا پانی لے کر دریائےجہلم اس میں آن ملتا ہے۔ اسی جگہ تریموں ہیڈ ورکس واقع ہے۔ 
1939 میں بنائے جانے والے اس بیراج سے نکلنے والی بڑی نہر تریموں - سدھنائی لنک کینال ہے جو مشرق سے چناب کا پانی لے کہ خانیوال میں دریائے راوی پر بنے سدھنائی ہیڈورکس میں مل جاتی ہے۔ حویلی کینال بھی اس کے ساتھ ہی سفر کرتی ہے۔ جبکہ تریموں کی غربی جانب رنگ پور کینال نکلتی ہے جو جھنگ اور مظفرگڑھ کے علاقوں کو سیراب کرتی ہے۔
یہیں چناب کے دوسری جانب اٹھارہ ہزاری واقع ہے جس کے قریب تھل کا ریگستان ہے۔
کچھ جنوب میں سفر کریں تو ہم چناب کے ساتھ شور کوٹ شہر پہنچ جاتے ہیں۔  ۔
شورکوٹ جھنگ کی تحصیل ہے جہاں پاک فضائیہ کی اہم ائیر بیس موجود ہے۔ قلعہ شورکوٹ کی بنیاد مشہور راجا اشور نے رکهی تهی اس لیے علاقے کو شورکوٹ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ 
اس شہر سے 12 کلو میٹر کے فاصلے پر شور ائیر بیس اور شور کوٹ چھاؤنی جنکشن واقع ہے۔ یہ شہر صوفی بزرگ سید بہادر  علی شاہ اور شاہ محمود غازی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 
شور کوٹ سے آگے گڑھ مہاراجہ ہے جہاں مشہور صوفی حضرت سلطان باہو کا مزار واقع ہے۔ عہد شاہجہاں میں شور کوٹ میں پیدا ہونے والے صوفی بزرگ سخی سلطان باہوؒ کا تعلق سلسلہ سروری قادری سے ہے۔ آپ کے والد سپاہی تھے۔ آپ ایک صالح، شریعت کے پابند، حافظِ قرآن فقیہ شخص تھے۔ سخی سلطان باہو کی والدہ بی بی راستی، عارفہ کاملہ تھیں ۔ سلطان باہو کی پیدائش سے قبل ہی بی بی راستی کو ان کے اعلیٰ مرتبہ کی اطلاع دے دی گئی تھی اور ان کے مرتبہ ''فنا فی ھُو'' کے مطابق ان کا اسمِ گرامی باھُو الہاماً بتا دیا گیا۔ آپ نے ابتدائی باطنی و روحانی تربیت اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی۔
جس چیز نے آپؒ کو شہرت دوام بخشی وہ ابیات باہو ہے۔ اس کے ہر مصرعے کے بعد ہُو آتا ہے جو ذات باری تعالٰی کے لیے مخصوص ہے۔ یہ خاص رنگ سخن باہو کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ آپ کی تمام شاعری تصوف پر مبنی ہے۔ آپ کا عرس ہر سال جمادی الثانی کی پہلی جمعرات کو گڑھ مہاراجہ میں منایا جاتا ہے۔
یہاں احمد پور سیال کے پاس جھنگ کا اختتام ہوتا ہے اور یہ خانیوال کی حدود میں داخل ہوتا ہے جہاں 
''ستیاں والا'' کے مقام پر راوی اِس میں آ ملتا ہے۔ ضلع خانیوال اور مظفرگڑھ کی مختصر سی حد بندی کرتا ہوا یہ ضلع ملتان کے مغرب میں آ جاتا ہے جہاں دوسری طرف ضلع مظفرگڑھ واقع ہے۔ 
یہاں محمد_والا کے مقام پر ایک چھوٹا ہیڈورکس بنایا گیا ہے جسے ہیڈ محمد والا کہا جاتا ہے۔ ہیڈ محمد والا کے قریب چناب کے گرد پاٸے جانے والے خوبصورت پرندوں اور آبی حیات کی بہتات ہے۔  یہ ایک بہترین تفریحی مقام ہے۔
مظفرگڑھ کی طرف لنگر سراں کے قریب اس میں ''تونسہ پنجند لنک کینال'' شامل ہوتی ہے جو دریائے سندھ پر تونسہ بیراج سے نکلتی ہے۔ دوسری طرف ملتان میں بوسن کا علاقہ ہے جو آموں کی پیداوار اور مویشی بانی کے لیئے مشہور ہے۔ 
کچھ جنوب میں ملتان کینٹ کی حدود شروع ہو جاتی ہے۔ یہیں ملتان سے مظفرگڑھ اور کوٹ ادو جانے والی لائن اس پر شیر شاہ پل سے گزرتی ہے۔ 
شیر شاہ پل ملتان و مظفرگڑھ کے بیچ مرکزی رابطہ پُل ہے۔
پاکستان کا پانچواں بڑا شہر ملتان، دنیا کے قدیم ترین شہروں میں گنا جاتا ہے۔ اس کی تاریخ قبلِ مسیح سے بھی پہلے کی ہے۔ اسلامی تاریخ کی بات کی جائے تو مولتان کو سب سے پہلے 712 عیسوی میں محمد بن قاسم نے فتح کیا اور اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ان کے بعد محمود غزنوی نے ہندوستان کو فتح کرنے کے ساتھ ملتان کو بھی فتح کیا اور اسے اپنی حکومت میں شامل کیا۔ 1175 عیسوی میں سلطان شہاب الدین محمد غوری نے خسرو ملک کو شکست دے کر ملتان پر قبضہ کر لیا۔  غوری کے بعد بے شمار خاندانوں نے اس کو اپنا پایہ تخت بنائے رکھا،جن میں خاندانِ غلاماں ،خاندانِ خلجی، خاندانِ تغلق، خاندانِ سادات، خاندانِ لودھی اور پھر مغلیہ سلطنت کے حکمرانوں تک ملتان مسلم سلطنت کا حصہ رہا۔ 1857 کی جنگ ِ آزادی کے بعد انگریزوں نے ملتان پر مکمل قبضہ کر لیا جو برصغیر کی آزادی تک جاری رہا ۔
اس شہر کی شہرت کے کئی حوالے ہیں۔
صوفیاء ، مزار و درگاہیں، سوہن حلوہ، ہندوؤں کا قدیم  پرہلاد مندر، ملتانی کاشی گری، فنِ کھسہ سازی، گرد و گرما اور رسیلے آم۔ 
 یہاں چناب کی دوسری جانب مظفرگڑھ واقع ہے جس کی بنیاد 1794 میں نواب مظفر_خان شہید نے رکھی تھی۔ دو دریاؤں کی بیچ واقع یہ ضلع پنجاب کے زرخیز ترین اضلاع میں سے ایک ہے جہاں بہترین کپاس، آم اور گندم پیدا ہوتی ہے۔
چناب اپنے اختتامی سفر پر رواں دواں ہے جہاں یہ خان پور، شجاع آباد، خان گڑھ ، فیض پور، شہرسلطان، شاہ پور اور مڈ والا سے ہوتا ہوا بہاولپور کی حدود میں آ جاتا ہے۔ یہاں خشک دریائے ستلج اس میں جا ملتا ہے اور کچھ ہی آگے مغرب میں مظفر گڑھ بہاولپور سرحد پرعلی پور کے قریب '' پنجند ہیڈ ورکس'' آ جاتا ہے۔
پنجند ہیڈورکس پنجاب کے بڑے بیراجوں میں سے ایک ہے جہاں ایک زمانے میں پانچوں دریاؤں
 (روای ، چناب، ستلج، بیاس، جہلم) کے پانی کا سنگم ہوتا تھا۔ 
پنجند کی تاریخی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مہا بھارت کے قصے کہانیوں میں اس کا ذکر ملتا ہے جو ''پنجا ندا'' (پانچ ندیاں) کے حوالے سے ہے۔ پنجاب کی تاریخ کا پنجند سے گہرا تعلق ہے، مسلمانوں کی آمد سے پہلے پنجاب کا علاقہ بیاس سے غزنی تک تھا اور اسیپت سندھو
 (ست دریاؤں کی سرزمین) کہلاتا تھا۔ 
1922ء میں ستلج ویلی پراجیکٹ کے تحت اس دریا پر ہیڈ ورکس کی تعمیر شروع ہوئی جو 1932ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔اس منصوبے کے تحت ہیڈ پنجند سے دو بڑی نہریں ''عباسیہ نہر'' اور ''پنجند کینال'' اور بعد ازاں 
نیو عباسیہ کینال نکالی گئیں جو ضلع بہاول پور و رحیم یار خان  سمیت چولستان کے وسیع علاقہ کو سیراب کرتی ہیں۔ انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث آبپاشی کا ایک بڑ ا ذریعہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
 ہیڈ پنجند سے نکلنے والی نہریں جو چولستان کو سیراب کرتی تھیں، ریت اور مٹی سے اٹ کر اپنی صلاحیت کھو چکی ہیں جس کی وجہ سے چولستان کا 64لاکھ ایکڑ رقبہ صحرا میں تبدیل ہوچکا ہے۔
 کسی بھی ملک کی تہذیب و ثقافت اوراس کے تاریخی مقامات اس ملک کی شناخت ہوتے ہیں جنھیں آنے والی نسلیں "ثقافتی ورثے" کے طور پر سنبھال کر ہمیشہ زندہ رکھتی ہیں۔ پنجند تاریخی اعتبار سے رومانیت کی حامل سرزمین رہی ہے جسے بابا بلھے شاہ، شاہ عبدالطیف بھٹائی اورابراہیم ذوق جیسے صوفی شعراء نے موضوع سخن بنایا۔ پانچ دریاؤں کے ملاپ کا تصور ہی انسانی ذہن کے لیے دلچسپی کا حامل ہے جس کی وجہ سے ملک بھر کے دوردراز علاقوں سے لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔
ہیڈ پنجند کے پاس صرف ایک کمرے کا چھوٹا سا میوزیم موجود ہے جس کی صفائی بھی نہیں کی جاتی۔  یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ پاکستان ٹورازم کی سرکاری ویب سائٹ پر ہیڈ پنجند جیسے تاریخی اور تکنیکی لحاظ سے اہمیت کے حامل مقام کا کوئی ذکرتک موجود نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ یہاں سیاحت کے فروغ کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ کوئی سہولیات میسر ہیں۔
 اس بیراج سے آگے چناب کو دریائے 
پنجند بھی کہا جاتا ہے۔ 
یہاں اس کی جنوب مشرقی جانب ضلع رحیم یار خان کی حدود شروع ہو چکی ہے جہاں اس کے کنارے زرخیز میدان واقع ہیں۔ 
مظفر گڑھ کی جانب سیت پور  چناب پر آخری بڑا قصبہ ہے۔ 
یہ قدیم قصبہ طاہرخان ناہڑ کے مقبرے کی بدولت جانا جاتا ہے۔ 
اس جگہ کا ذکر ہندؤوں کی مقدس کتاب رگ وید میں بھی ملتا ہے ۔اوچ اور سیت پور کے تاریخی مقامات ایک دوسرے کے قریب واقع ہیں۔ اوچ میں واقع  رام کلی کے مقام  اور سیت پور کے نام سے کچھ لوگ سیتا رام کی کہانی کو اس علاقے سے جوڑتے ہیں۔ 
 سکندر اعظم کے یہاں حملے اور قبضے سے متعلق تذکرے بھی ملتے ہیں جو ابھی مزید تحقیق کے متقاضی ہیں۔

 ایک اور روایت کے مطابق محمود غزنوی کے ہم عصر اور فریقِ مخالف راجہ جے پال نے گیارہویں صدی عیسوی میں اپنی دو بیٹیوں سیتا اور اوچا رانیوں کے ناموں سے یہ علاقے منسوب کئے ۔ مسلمانوں کی عملداری میں آنے کے بعد یہاں مختلف حکمران خاندان بدلتے رہے۔ اسلام خان لودھی نے یہاں اپنی خود مختار سلطنت قائم کی اور سیت پور کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ مخدوموں کے عہد میں بھی یہ علاقہ ایک علیحدہ مملکت کے طور پر قائم رہا، بہاول پور کے عباسیوں نے ھی کچھ عرصہ یہاں حکومت کی۔ 
1880 کی دہائی میں بنی شاہی مسجد بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

یہاں سے آگے بل کھاتا چناب مختلف شاخوں میں منقسم ہو جاتا ہے اور بستی گھاگھڑی پہنچتا ہے۔ 
بستی گھاگھڑی کے قریب ہی وہ مقام ہے جہاں ہماچل و جموں کشمیر کا چندر بھاگا پنجاب کا چناب بن کہ خود کو سندھو کے سپرد کر دیتا ہے۔ سندھو ندی اسے ایک ماں کی طرح اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ 
یوں اپنے پانیوں میں محبت گھولے، ہماچل کی وادیوں کی خوبصورتی سموئے، کشمیر کے زعفرانی ذائقے لیئے، جموں کی تاریخ سنبھالے، پنجاب کے میدانوں کی زرخیزی اوڑھے, اپنے سینے پر کئی بندوں کا بوجھ اٹھائے اور مختلف نہروں کو پانی دان کرتے چندربھاگا، سندھ میں ضم ہو جاتا ہے۔

وہ چاند تاروں کے سارے قصے 
وہ ہیر رانجھے کی سب کہانی 
وہ لیلی مجنوں کی چاہتوں کے 
سنائیں گے جب فسانے خود کو 
تو چپکے چپکے 
پھر ان کے دل میں 
چناب لہریں ابھار دے گا 
تو سوہنی کچے گھڑے پہ بیٹھی
مسا فتوں کو سمیٹ لے گی 
کہیں سے تیروں کی جھولی بھر کے 
صاحباں تلملا اٹھے گی
اور تپتے صحرا میں کھوجتی سی 
سسی کو پنوں تلاش لے گا 
پھر اس طرح کی ہزاروں باتیں 
ہزاروں قصے سنا کریں گے 
اور چاند ماموں کی ٹھنڈی لو میں 
گداز راتیں گزار دیں گے 
اور اپنی اپنی انا کی خاطر
ہم اپنی چاہت کو مار دیں گے 
پرانے قصے پرانی باتیں 
بھلا چکو جب تو لوٹ آنا

٭ وہ اضلاع جہاں سے چناب گزرتا ہے ،
لاہول و سپ

تبصرے

Contact Us

نام

ای میل *

پیغام *

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جماعت اسلامی کو لوگ ووٹ کیوں نہیں دیتے؟

میں کون ہوں؟